کمسن زینب کے قاتل کے ڈیتھ وارنٹ، 17 اکتوبر کو پھانسی ہو گی


لاہور: صوبائی دارالحکومت لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور کی معصوم بچی زینب کو اغواء کے بعد ذیادتی کا نشانہ بنانے اور پھر
قتل کرنے کے مجرم علی عمران کے بلیک وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔

جمعہ کے روز انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سجاد احمد نے زینب کے قاتل عمران علی کے بلیک وارنٹ جاری کیے۔ زینب سمیت 12 بچیوں کے قاتل کو 17 اکتوبر کو پھانسی دی جائے گی۔

رواں برس فروری میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے زینب سے ذیادتی اور قتل کا جرم ثابت ہونے پر مجرم عمران علی کو چار بار سزائے موت سنائی تھی۔ اگست میں  مجرم عمران کو مزید تین مقدمات میں 12 مرتبہ پھانسی، 60 لاکھ روپے جرمانہ اور 30 لاکھ روپے دیت کی سزا سنائی گئی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت  کے ایڈمن جج شیخ سجاد احمد نے حتمی دلائل سننے کے بعد اپنے فیـصلے میں ملزم کو پانچ سالہ عائشہ آصف کے ساتھ زیادتی اور قتل کیس میں چار مرتبہ سزائے موت، 20 لاکھ جرمانہ اور 10 لاکھ روپے دیت، جب کہ آٹھ سالہ لائبہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کیس میں چار بار سزائے موت، 20 لاکھ جرمانہ اور 10 لاکھ روپے دیت کی سزا سنائی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں سات سالہ نور فاطمہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کیس میں بھی چار بار سزائے موت، 20 لاکھ جرمانہ اور 10 لاکھ روپے دیت کی سزا سنائی۔

 زینب قتل کیس میں کب، کیا ہوا؟

چار جنوری کو پنجاب کے ضلع قصور سے سات سالہ زینب اچانک غائب ہوئی جو بعد ازاں اغواء کا واقعہ ثابت ہوا۔

نو جنوری کو زینب کے گھر کے قریب واقع کچرا کنڈی سے ننھی پری کی لاش ملی۔ ابتدائی تفتیش میں ہی پولیس نے زینب سے زیادتی کی تصدیق کر دی۔

دس جنوری کو پاکستانی عوام نے زینب واقعہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جسٹس فور زینب کا پیغام دنیا بھر میں پہنچا۔

گیارہ جنوری کو قصور میں زینب کے اغوء اور قتل کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین نے قاتل کی گرفتاری اور سزائے موت کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین پر پولیس فائرنگ سے ایک فرد زخمی اور دو قتل ہوئے۔

12 جنوری کو قصور میں زینب کے حق میں جاری مظاہرے ختم ہو گئے۔ پنجاب پولیس نے قتل کیس کی تحقیقی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قاتل کو گرفتار کرنے کے لیے پنجاب پولیس کو 36 گھنٹے کی مہلت دی۔

13 جنوری کو وزیر اعلیٰ پنجاب نے زینب  قتل کیس کے تناظر میں چائلڈ پروٹیکشن کمیٹی تشکیل دے دی۔

21 جنوری کولاہور رجسٹری میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی۔

23 جنوری کو پولیس نے ملزم عمران علی کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔ جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کی۔

24 جنوری کو انسداد دہشت گردی  کی خصوصی عدالت نے ملزم کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےکر دیا۔

تین فروری کو اقوام متحدہ نے زینب قتل کیس کا نوٹس لے لیا۔

آٹھ فروری کو قاتل عمران علی نے زینب سمیت آٹھ بچیوں سے زیادتی کا اعتراف کرلیا۔ عمران علی نے سات بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا  بھی اعتراف کیا۔

نو فروری کو پراسیکیوٹر جنرل شاہد قادر نے عمران علی کا جیل میں ٹرائل کرنے سے عدالت کو آگاہ کیا۔

دس فروری کو سپریم کورٹ نے زینب قتل از خود نوٹس کیس نمٹا دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثارنے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق سات روز میں فیصلہ سنانے کی ہدایت کی۔

12 فروری کو ملزم عمران علی پر زینب کو قتل کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی۔

15 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

16 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت نے زینب کے قاتل عمران علی کو چار بار سزائےموت کا حکم سنایا۔


متعلقہ خبریں