ہمیشہ یاد رہنے والی لکھائی یاداشت بڑھائے

ہمیشہ یاد رہنے والی لکھائی یاداشت بڑھائے|humnews.pk

میلبورن: آسٹریلیا کے رائل میلبورن انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ کسی بھی دستاویز میں استعمال کیا جانے والا لکھائی کا انداز اس بات کا تعین کرتا ہے کہ انسانی ذہن فلم میں موجود معلومات کو قبول کرتا یا یاد رکھتا ہے یا نہیں۔

سائنس دان اس بات سے پہلے ہی واقف تھے کہ جہاں انسان اپنے گرد ونواح سے ہروقت ہزاروں قسم کی معلومات حاصل کررہا ہوتا ہے لیکن  اس تمام معلومات میں سے انسانی دماغ ہر بات یاد نہیں رکھ پا رہا ہوتا کیونکہ اپنے ارد گرد سے حاصل معلومات میں سے انسانی دماغ بہت کم باتیں ذہن نشین کرپاتا ہے اور معلومات ذہن نشین نہیں رکھنا  ہر انسان کی یاداشت پر منحصر  ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق معلومات کا زیادہ تر حصہ انسانی دماغ  کے اس حصے میں محفوظ ہوتا ہے جیسے نیم لاشعوری حصہ یعنی (subconscious)  کہتے ہیں کیونکہ انسان ہراس بات کو یاد نہیں رکھنا چاہتا جو اس کے مطلب کی ہو اسی لیے انسانی دماغ کے شعوری حصے میں صرف وہی معلومات ذہن نشین ہوتی ہے جو دماغ کے توجہ کا مرکز بنے یا پھر اس کے لیے بہت اہم ہو۔

آسٹریلیا کے رائل میلبورن انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کی ایک تحقیق کے مطابق عام طور پر دستاویزات میں جو فانٹ یعنی لکھائی کے اسٹائل یا انداز استعمال ہوتے ہیں وہ دماغ کی توجہ اس طرح حاصل نہیں کرپاتے جومعلومات آپ کے شعوری حصے کو دستیاب ہو اور اسی لیے انسان اس میں دلچسپی نہیں لے پاتا۔

رائل میلبورن انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی نے اس مسئلے کے حل کے لیے لکھائی کا ایک ایسا انداز ایجاد کیا جس سے زیادہ سے زیادہ معلومات انسانی دماغ کے نیم شعوری حصے کے بجائے شعوری حصے میں محفوظ ہوسکے۔

یہ فانٹ ٹیپوگرافرز، ڈیزائنرز اور ماہرنفسیات نے مل کر تیار کیا ہے۔  اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ فانٹ آپ کی قوت یاداشت کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس فانٹ کو پڑھنے میں زیادہ وقت درکار ہے اور جب دماغ کسی چیز کو پوری توجہ سے پڑھتا ہے یا دیکھتا ہے تو اسے ایک جگہ پر فوکس کرنا پڑتا ہےا ور وہ  ٹھرجاتا ہے جس کے باعث زیادہ معلومات ذہن نشین ہوتی ہے۔

فانٹ پڑھنے میں مشکلات اس کے دیزائن میں خالی جگہ اور اس کے ترچھے پن کی وجہ سے ہے لیکن اسے زیادہ مشکل بھی نہیں بنایا گیا کیونکہ اگر کسی کام میں مشکلات زیادہ ہوں تو انسانی دماغ  اسے نظر انداز کرتا ہے۔


متعلقہ خبریں