فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی


اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر دو نے نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ استعاثہ کے اہم گواہ واجد ضیاء نے  فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں آج اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ پابامہ جی آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کل دوسرے روز بھی اپنا بیان جاری رکھیں گے۔

پیر کے روز کارروائی کی ابتداء میں ٹرائل مکمل کرنے کی مدت میں توسیع کے متعلق سپریم کورٹ کے حکم نامہ کی کاپی عدالت میں پیش کی گئی۔  جج ارشد ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس کے بعد مزید وقت نہ دینے کا کہا ہے۔

واجد ضیاء نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اس ریفرنس سے متعلق سوال یہ تھا کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ یہ بھی پتہ لگانا تھا کہ کیا نواز شریف کے کوئی ایسے اثاثے ہیں جو ان کی آمدن سے زیادہ ہیں؟ جے آئی ٹی کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے محدود وقت دیا گیا تھا، پانچ مئی 2017 کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی ممبرز کے ناموں کا اعلان کیا اور ایف آئی اے سے ایڈشنل ڈائریکٹر سطح کے فرد کا نام جے آئی ٹی کے لیے طلب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی، نیب، اسٹیٹ بینک، ایم ائی اور آئی ایس آئی سے جے آئی ٹی کے دیگر ممبران کا انتخاب کیا گیا۔

واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ تمام اداروں کے سربراہان سے جے آئی ٹی کے لیے نام طلب کیے گئے تھے، ایف آئی اے کی طرف سے بھیجے گئے ناموں میں میرا نام بھی شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو کچھ سولات دیے تھے جن کا پتہ لگانا تھا۔ سوال یہ تھے کہ گلف اسٹیل کیسے بنی؟ کیسے فروخت ہوئی؟ اس کے واجبات کا کیا بنا؟ قطری خطوط حقیقت تھے یا افسانہ؟ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے متعلق بھی معلوم کرنا تھا، حسین نواز کی قائم کی گئی کمپنی ہل میٹل سے متعلق بھی تفتیش کرنی تھی۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے طارق شفیع، شہباز شریف اور نواز شریف کے بیان ریکارڈ کیے، حسن اور حسین نواز کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے، جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ سے بھی ریکارڈ حاصل کیا تھا۔

واجد ضیاء نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جمع کی گئی متفرق درخواستیں حاصل کی تھیں۔ حاصل کی گئی تمام دستاویزات ایک ایک کر کے لکھوا دیتا ہوں۔ جے آئی ٹی نے نیب آرڈیننس کی شق 21 کے تحت ایم ایل اے لکھنے کے اختیارات کی درخواست کی جس پر وزارت قانون و انصاف کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن میں 21 جی کے اختیارات دیے گئے۔

واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے فلیگ شپ ریفرنس سے متعلق یو اے ای اور یو کے کو ایم ایل اے لکھے جب کہ جے آئی ٹی کو یو اے ای حکام کی طرف سے ہی ایم ایل اے کا جواب موصول ہوا۔ واجد ضیا نے 22 دسمبر 2016 کے قطری شہزادے کا خط عدالت میں پیش کر دیا۔

نواز شریف کے وکیل کا اعتراض

خواجہ حارث نے قطری شہزادے کا خط پیش کرنے پر اعتراض کیا۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ قطری شہزادے کو اس کیس میں بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ قطری شہزادے کے خط کی فوٹو کاپی قانون کے مطابق تصدیق شدہ بھی نہیں۔

واجد ضیاء نے طارق شفیع کا بیان حلفی عدالت میں پیش کیا تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اس پر اعتراض کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طارق شفیع نہ اس کیس میں گواہ ہیں نہ ہی ملزم اور طارق شفیع کا بیان حلفی قانون کے مطابق تصدیق شدہ بهی نہیں ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ طارق شفیع کا بیان حلفی شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

واجد ضیاء نے 1978 میں اہلی اسٹیل ملز کے 75 فیصد شئیرز کی فروخت اور طارق شفیع اورعبداللہ اہلی کے درمیان 1978 کا پارٹنر شپ معاہدہ بهی عدالت میں پیش کیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مکمل شواہد پیش کرنے میں دو دن لگ جائیں گے۔

دوران سماعت جج ارشد ملک اور پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کے درمیان اصل دستاویزات پر مکالمہ ہوا۔ جج اشد ملک نے کہا کہ اگر کوئی گواہ اصل دستاویزات اپنے پاس رکھے اور کیس فارغ ہوجائے تو کیا فائدہ ؟ واجد ضیاء نے کہا پہلے دو کیسز میں یہ دستاویزات عدالت نے دیکھ کر واپس کردی تھیں۔

جج ارشد ملک نے کہا ہمیں پتہ ہےآپ کو دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرانا ہوتی ہیں۔ مگر ایک  طریقہ کار ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ آپ مجھ سے بہتر قانون جانتے ہیں۔ جج ارشد ملک نے یو اے ای حکام کی طرف سے آنے والے جواب پر عدالتی تصدیق ثبت کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی مہر سے دستاویز کے اصل ہونے کی قدر اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

جمعہ کے روز سماعت کے شروع میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے معاون نے عدالت کو بتایا تھا کہ خواجہ حارث سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے احتساب عدالت کو بتایا کہ واجد ضیاء کا بیان خواجہ حارث کی موجودگی میں ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔

استعاثہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل بھی سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ العزیزیہ میں شواہد مکمل ہونے سے متعلق بیان وہی دیں گے۔

وکلاء کا موقف سننے کے بعد احتساب عدالت کے جج  نے پیر کے روز نیب سے العزیزیہ میں شواہد مکمل ہونے سے متعلق بیان طلب کر لیا تھا۔


متعلقہ خبریں