خیبر پختونخوا اسمبلی کا بجٹ پیش


پشاور: خیبرپختونخوا (کے پی) اسمبلی نے صوبائی بجٹ پیش کردیا، ترقیاتی بجٹ میں 1376 منصوبے شامل ہیں جبکہ صحت پر 78 ارب 65 کروڑ، تعلیم  پر 167 ارب روپے خرچ ہوں گے اور نوجوانوں کوپانچ ارب کے بلا سود قرضے بھی دیئے جائیں گے۔

آٹھ ماہ کا بجٹ پیش کرنے کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ پیپلزپارٹی کے اراکین نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شرکت کی۔

اجلاس شروع ہوا تو ن لیگی ارکان نے نوازشریف کی تصاویر اٹھا کر ایوان میں احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اپوزیشن ارکان کی جانب سے بجٹ تقریر کی کاپیاں پھاڑ دی گئیں۔

صوبائی وزیر خزانہ  تیمورسلیم نے بتایا کہ سال 2018-19 کا بجٹ کا حجم 648 ارب روپے ہے جس میں سے اخراجات کا تخمیہ 618 ارب اور محصولات کا تخمینہ 603 ارب روپے ہے۔

رواں برس سالانہ ترقیاتی بجٹ صرف 180 ارب روپے رکھے گئے جبکہ صوبائی بجٹ میں اخراجات جاری کے لیے 438 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔اسی طرح صوبے کو مرکز سے 426 ارب روپے ملیں گے۔

تیمورسلیم نے بتایا کہ بجٹ کے تحت پن بجلی کے خالص منافع سے 65 ارب روپے ملیں گے جبکہ صوبے کی وسائل 41 ارب بیرونی امداد سے 61 ارب روپے ملیں  گے۔

بجٹ میں 1155 پرانے اور 221 نئے منصوبے شامل ہیں، 167 ارب روپے کے تعلیمی بجٹ میں 21 ارب ترقیاتی منصوبوں کے لیے ہیں، صحت کے لیے 78 ارب روپے میں 12 ارب روپے ترقیاتی بجٹ ہے۔

وزیر خزانہ کے پی نے بتایا کہ صحت انصاف کارڈ کو آٹھ لاکھ خاندانوں تک توسیع دی جائے گی جبکہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے 39 ارب روپے بی آر ٹی کی تکمیل پر خرچ ہوں گے اسی طرح مقامی حکومتوں کے نظام کو قبائلی علاقوں تک توسیع دی جائے گی۔

648 ارب روپے کا صوبائی بجٹ گزشتہ مالی سال کے 603 ارب روپے کے تخمینہ سے سات فیصد زائد ہے۔

وزیرخزانہ تیمورسلیم کا کہنا تھا کہ صوبہ اپنے اخراجات کو 618 ارب روپے تک محدود کر رہا ہے، رواں مالی سال کا بجٹ 30 ارب روپے کا فاضل تخمینہ ہے۔

مرکزی حکومت سے ملنے والے 426 ارب روپے میں سے 360 ارب روپے ٹیکس اور 23 ارب روپے تیل اور فیس کی رائلٹی کی مد میں ملنے ہیں۔ 65 ارب روپے بجلی کے خالص منافع کی مد میں ملیں گے، ان میں 36 ارب روپے کے بقایا جات بھی شامل ہیں۔

41 ارب روپے صوبائی ٹیکسز اور نان ٹیکسز سے، 71 ارب روپے بیرونی امداد اور 45 ارب روپے دیگر محصولات کی مد میں ملیں گے۔

وزیزخزانہ نے گزشہ مالی سال میں ملنے والی 493 ارب روپے کی رقم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال کے لیے متوقع رقم کا ملنا بھی چند عوامل پر منحصر ہے۔

وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر میں ملکی حالات کو نارمل نہ قرار دیتے ہوئے بجٹ کے معمول سے ہٹ کر ہونے کا اقرار کیا گیا ہے۔ وزیرخزانہ کے مطابق گزشتہ حکومت میں مشکل فیصلے کرنے کی ہمت نہیں تھی اس لیے پی ٹی آئی کو ایسی وفاقی حکومت ملی جو دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔

صوبائی بجٹ تقریر میں ملکی حالات کے ذکر کا جواز پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ چونکہ ہم اپنے بجٹ کے لیے وفاق پر 90 فیصد انحصار کرتے ہیں اس لیے وفاقی پالیسیاں ہمارے اوپر زیادہ اثرا انداز ہوتی ہیں۔

وزیرخزانہ نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی۔ اپوزیشن اور میڈیا ہر روز یاد دلاتے ہیں، ہم نے کوشش کی، ہم نے سیکھا، ہم نے اچھے کام بھی کیے اور ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔

تحریک انصاف کے 100 روزہ پلان کے تحت کیے جانے والے اقدامات کے لیے بجٹ میں دو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 90 فیصد بجٹ جاری ترقیاتی منصوبوں کو دینے کا اعلان کرتے ہوئے وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ دس اہم منصوبوں کو رواں مالی سال میں مکمل کرنا خاص ترجیح ہے۔

قبل ازیں سامنے آنے والی خبر میں کہا گیا تھا کہ کے پی کے وزیر خزانہ تیمور سلیم آج دوپہر تین بجے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پیش کریں گے، ذرائع کے مطابق بجٹ کا کُل حجم 613 ارب سے زائد رکھا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے بجٹ میں سے ترقیاتی کاموں کی مد میں 195 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور جاری ترقیاتی اسکیموں کے لیے 70 فیصد جب کہ نئی اسکیموں پر لگانے کے لیے ترقیاتی کاموں کی رقم کا 30 فیصد حصہ رکھے جانے کا امکان ہے۔

خیبر پختونخوا کے مالی سال 2018- 2019 کے بجٹ میں 71 ارب روپے غیرملکی وسائل کے لیے رکھے گئے ہیں۔

مالی سال سے پہلے چار ماہ کا بجٹ نگراں حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا تھا اور نگراں حکومت نے پہلے چار ماہ کے بجٹ میں 198 ارب روپے کی رقم مختص کی تھی جب کہ خیبرپختونخوا کی گزشتہ حکومت نے بجٹ پیش نہ کرنے کا فیـصلہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ بجٹ نگراں حکومت پیش کرے گی۔

ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت کو مالی بحران کے باعث بجٹ بنانے میں مشکلات کا سامنا تھا۔


متعلقہ خبریں