کلاس سے قبر تک۔۔۔!


کہتے ہیں کہ ’’چھوٹے کفن دنیا میں سب سے بھاری ہوتے ہیں‘‘۔ یہ احساس اس وقت نہایت شدت سے اس والد کو ہوتا ہے جو اپنے اس جگر گوشے کی نعش اٹھاتا ہے جسے اس نے ’شاید‘ خوابوں کی تعبیر کے لیے موت کے راستے پر ڈال دیا تھا۔

’ہم نیوز‘ کے پروگرام ’ ہم انوسٹی گیٹس‘ نے اس مرتبہ ان معصوم اورذہن بچوں کی ’بپتا‘ تلاش کی جنہیں ’درحقیقت‘ ہمارے نصاب تعلیم، نظام تعلیم، والدین کی خواہشات اورسماج نے مل کر’قتل‘ کیا لیکن پھر سب نے مل کر اپنا ’جرم‘ چھپانے کے لیے پیش آنے والے ’سانحے‘ کو ’خودکشی‘ جیسے قابل نفرت ’الفاظ‘ کا نہ صرف لبادہ پہنایا بلکہ سارا بوجھ بھی اسی معصوم ’ مرحوم‘ پر ڈال دیا۔

’کلاس سے قبر تک ۔۔۔!‘ کے حقائق جاننے کے لیے ’ ہم انوسٹی گیٹس‘ کی ٹیم صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ کے دور افتادہ علاقے سرڈھیری پہنچی تو یہ حقائق سامنے آئے۔

’موت کا گلے لگانے والے‘ 14 سالہ امیر حمزہ کے والد  ٹیلر ماسٹر ہیں۔ نامساعد حالات کے باوجود اس کے والد نے اپنے تمام بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں داخل کرایا  کیونکہ ہر والد کی طرح ان کی بھی خواہش اورکوشش تھی کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک کامیاب زندگی گزاریں اوراچھے شہری بنیں۔

امیر حمزہ کے تعلیمی ادارے کے سربراہ نفیس خان کا کہنا ہے کہ امیر حمزہ کے پہلے دو بھائیوں نے بھی اسی ادارے سے تعلیم حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر یہ تعلیمی ادارہ صرف اس لیے بنایا کہ گاؤں کے بچوں کا ’کوالٹی‘ ایجوکیشن دے سکوں۔ ایک سوال پر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اساتذہ اورتعلیمی ادارے کی ساری محنت کا انحصار بورڈ کے امتحانی نتائج پہ ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جب بورڈ کے نتائج سامنے آتے ہیں تو ہم سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

ایک سوال پراسکول پرنسپل نے اعتراف کیا کہ جب بچے بورڈ نتائج کے بعد ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کے کسی ہم جماعت کے ’اسٹڈی‘ میں کمزور ہونے کے باوجود زیادہ نمبر کیسے آگئے؟ توہماری زبان بندی ہوجاتی ہےکہ ہم اس بچے کو کیا جواب دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے باوجود ہم بچوں کو ’موٹیویٹ‘ کرتے ہیں کہ آپ کے مستقبل کا انحصار صرف نمبروں پر نہیں ہے اور انہیں یققین بھی دلاتے ہیں کہ آپ کو اپنا حق ضرور ملے گا مگر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بچے چھوٹے ہوتے ہیں۔

ان کی تجویز تھی کہ اس مرحلے پر حکومت کو بچے پر ہاتھ رکھنا چاہیے مگر افسوس کہ پورے ملک میں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک میں وقتاً فوقتاً ڈاکٹرز بچوں کا معائنہ کرتے ہیں اور اگر اس دوران کوئی مسئلہ ہو تو اسے بات چیت سے حل کیا جاتا ہے لیکن یہاں حکومتی و نجی دونوں سطح پر ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔

ہم انوسٹی گیٹس نے جب دریافت کیا کہ امیر حمزہ کے ساتھ اصل میں کیا ہوا؟ کہ اس نے انتہائی قدم اٹھا لیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی توقعات کے مطابق نمبرز نہیں آئے تھے۔ وہ بچہ میرے ہاتھوں پلا بڑھا تھا اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ امتحانات میں کتنے نمبرز لے سکتا تھا؟

نفیس خان کا کہنا تھا کہ یہ پشاور تعلیمی بورڈ کا مسئلہ ہے کہ امتحانی کاپیوں کو چیک کرنے کا نظام درست نہیں ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بورڈ کے لیے لازمی ہو کہ وہ بورڈ میں بیٹھے اوراعلیٰ حکام سے میری درخواست ہے کہ چیئرمین منتخب کرتے وقت ایسے شخص کا انتخاب کریں جو وقت دے سکے اور جسے  امتحانی نظام کا تجربہ ہو۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پشاور تعلیمی بورڈ میں جتنے بھی چیئرمین آئے وہ صرف اپنا وقت پورا کرنے آئے اور پھر اس بھاگا دوڑی میں لگے رہے کہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع مل جائے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ اگر بچوں کے مسائل حل ہوجائیں اورانہیں ان کا حق مل جائے تو پھر خودکشی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس ضمن میں انہوں نے تجویز دی کہ چیئرمین کا انتخاب تجرباتی بنیادوں پر چھ ماہ یا ایک سال کے لیے ہونی چاہیے۔

ایک اور سوال پراسکول پرنسپل کا کہنا تھا کہ امیر حمزہ کلاس کا سیکنڈ پوزیشن ہولڈر تھا لیکن جب بورڈ کے امتحانی نتائج میں اس کے صرف 360 مارکس آئیں گے تو وہ خودکشی نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟

اس سلسلے میں انہوں نے ایک مثال دی کہ گزشتہ سال گاؤں کے ایک چھوٹے سے اسکول کے بچے نے 550 میں سے 532 نمبر لیے تھے مگر اس مرتبہ وہ بچہ ’ٹاپ 20‘ سے بھی باہر ہے تو کیوں؟ انہوں نے کہا کہ اس کی جگہ ایک بچی ہے جس کا تعلق ایک بہت بڑے اسکول سے ہے جس کا میں نام نہیں لوں گا، آپ خود معلومات کرلیں، ثبوت میں دوں گا۔

اس ضمن میں انہوں نے مثال دی کہ نویں جماعت میں 532 نمبر لینے والا بچہ دسویں کلاس میں ٹاپ 20 سے بھی باہر ہوجاتا ہے  جب کہ وہ بچی جو نویں کلاس میں گزشتہ سال 497 نمبر لیتی ہے،2018 کے امتحانی نتائج میں ٹاپ کرجاتی ہے۔

ہم انوسٹی گیٹس کے استفسار پران کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ آٹھ دس کیسز مزید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ہم سیکریٹری ایجوکیشن کے نوٹس میں بھی لائے تھے اور ثبوت بھی فراہم کیے تھے مگر بدقسمتی سے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جب ہم نے معلوم کیا تو علم میں آیا کہ چیئرمین بورڈ کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ ان کا سوال تھا کہ اگر تعلقات کی بنیاد پر چیئرمین کو مواقع دیے جائیں گے تو پھر کیا ہوگا؟

انتہائی افسردہ لہجے میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے ہونہار طالب علم امیر حمزہ کے اسکول پرنسپل نفیس خان نے خبردار کیا کہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا، تعلیمی بورڈ میں اصلاحات نہ ہوئیں اور ارباب حل و عقد نے درست سمت میں اقدامات نہ اٹھائے تو یہ مسائل مزید آگے بڑھیں گے، نتیجتاً مزید امیر حمزہ خودکشیاں کریں گے۔

امیر حمزہ کی نجی زندگی کے متعلق جب ’ہم انوسٹی گیٹس‘ نے اس کے گھر کا رخ کیا تو وہاں اس کے چھوٹے بھائی محمد عباس سے ملاقات ہوئی جو اس کے ساتھ اسکول بھی جاتے تھے۔

محمد عباس نے اپنے بھائی کے متعلق کہا کہ وہ پانچ وقت کا نمازی تھا اورپورا قرآن کریم اس نے ترجمے کے ساتھ پڑھا تھا۔ کھیل میں وہ کرکٹ اور بیڈ منٹن پسند کرتا تھا۔ روزآنہ دو گھنٹے تک گھر پر پڑھائی کرنے والا امیر حمزہ جب والد کی دکان پر جاتا تھا تو کتابیں ہمراہ لے جاتا تھا۔

محمد عباس کے مطابق تعلیمی بورڈ کے نتیجے سے وہ کافی پریشان تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ میری والدہ بہت خفا ہے، ہر دوسرے دن قبرستان جاتی ہیں میرے بھائی امیر حمزہ کے پاس، ہم سمجھاتے ہیں تو بہت زیادہ روتی ہیں۔

امیر حمزہ کے بھائی محمد عباس نے طلبا کے لیے پیغام دیا کہ پڑھائی  وقت پر کریں اورنمبروں کی اتنی پرواہ نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نمبرز کم بھی آئیں گے تو دوبارہ کوشش سے مل جائیں گے۔

امیر حمزہ کے قریبی دوست کا کہنا تھا کہ اس نے ایک غلط حرکت کی ہے کیونکہ اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنے ساتھ زیادتی کی اور والدین کو غم میں ڈال گیا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امیر حمزہ کو یقین تھا کہ اس نے پڑھائی زیادہ کی لیکن نمبرز کم آئے ہیں تو عین ممکن ہے کہ یہی وجہ اس کی خودکشی کی ہو۔

ہم انوسٹی گیٹس کی امیرحمزہ کے والد سے بات نہیں ہوسکی کیونکہ اس کے چچا کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک اس حادثے کی وجہ سے بہت خفا ہیں اور ہر ایک سے کہتے ہیں کہ مجھ سے حمزہ کی بات نہ کرو میں برداشت نہیں کرسکتا ہوں۔ چچا کے مطابق امیر حمزہ کی والدہ بھی بہت خفا رہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ذہنی طورپر یہ تسلیم ہی نہیں کرپارہے ہیں کہ ایسا حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔

امیر حمزہ جیسی ’موت‘ 14 سالہ عامر نوید کی بھی ہوئی ہے جو پشاور کے رہائشی تھے لیکن ان کا تعلق اورکزئی ایجنسی سے تھا۔

عامر نوید کے والد نے ’ہم انوسٹی گیٹس‘ کو بتایا کہ وہ ابتدا ہی سے کلاس کا بہترین طالبعلم تھا اور امتحانی نتائج میں اچھے نمبر لیتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب اس کا تعلیمی بورڈ کا نتیجی سامنے آیا تو اسے یقین نہیں آیا اوراس نے نتیجہ دیکھنے کے بعد غصے میں اپنا موبائل فون ہی پھینک دیا تھا اورساتھ کہا تھا کہ اب وہ اسکول نہیں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے اس کے اساتذہ اور ساتھیوں نے بھی سمجھایا تھا کہ اس کے نمبر اچھے ہیں اور یہ کہ وہ دسویں جماعت میں زیادہ نمبر لے لے گا مگر اس کا اصرار تھا کہ نمبر کم ہیں۔

ایک سوال پر عامر نوید کے والد نے کہا کہ تین دن تک اس نے صحیح طریقے سے نہ کھایا، نہ پیا اور نہ ہی کسی سے بات چیت کی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس کا کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ شام کا وقت تھا جب وہ اوپر سے نیچے آیا اورہم لوگ اوپر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک گولی چلنے کی آواز آئی جس پر جا کے دیکھا تو پتہ چلا کہ اس نے خود کو گولی مارلی ہے۔

والدین کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ بچوں کے ساتھ گھرمیں ایسا سلوک کرنا چاہیے کہ ان پر نمبرز کی پریشانی نہ ڈالیں۔ تعلیمی بورڈ والوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ سیدھے طریقے سے اپنا کام کریں تاکہ جس کا جو حق ہے وہ اسے ملے اورکسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو وگرنہ یاد رکھیں کہ وہ ’خون‘ میں برابر کے شریک گردانے جائیں گے۔

عامر نوید کے والد نے اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے بھی درخواست کی وہ اس جانب توجہ دیں۔

ہم انوسٹی گیٹس سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین پشاور تعلیمی بورڈ ڈاکٹر فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے دوبارہ کاپیاں منگوا کر ماہرین سے چیک کرائیں تو یہ بات سامنے آئی کہ نمبرز دیے جانے میں ان کے ساتھ رعایت برتی گئی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ امتحانی بورڈ نے جو نمبرز انہیں دیے ہیں وہ کم تو ہو سکتے ہیں بڑھ نہیں سکتے۔

ہم انوسٹی گیٹس کا اگلا پڑاؤ تھا مشال کا گھر، جو دسویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ مشال نے بھی خودکشی کی ناکام کوشش کی تھی۔ امتحانی پرچوں میں ان کے 479 نمبر آئے تھے لیکن جب دوبارہ چیکنگ ہوئی تو وہ نمبر 497 ہوگئے مگر سلسلہ یہاں نہیں رکا کیونکہ جب مشال نے ان نمبروں کو بھی اپنا تسلیم کرنے سے انکار کیا تو ایک مرتبہ پھر کی جانے والی چیکنگ سے وہ نمبر 497 سے بڑھ کر 500 ہوگئے۔

مشال کے اسکول پرنسپل طاہر امین کہتے ہیں کہ بچوں نے درست جوابات دیے تھے مگر ان کو چیک کیے بغیر ہی کراس لگا دیا گیا تھا اوران کی مارکنگ بھی نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارے اسکول کے دس بچوں نے اپلائی کیا تھا اور سب ہی کے نمبر غلط تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تین تین ڈی ایم سی ایشو کرتے ہیں اوروہ بھی مفت میں نہیں۔

اویس بھی دسویں جماعت کے طالبعلم ہیں اوریہ بھی اسی اذیت ناک مرحلے سے گزرے جس سے مشال گزری ہیں۔

ہم انوسٹی گیٹس کی ملاقات شایان سے بھی ہوئی جس نے نویں کلاس میں بورڈ ٹاپ کیا مگر دسویں جماعت کے امتحان میں وہ ٹاپ 20 سے بھی باہر ہوگیا۔

ہم انوسٹی گیٹس کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات چترال اور مالا کنڈ  کے نوعمر طالبعلموں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے جس کا فوری نتیجہ خودکشی کی صورت میں نکلتا ہے۔ وجوہات کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ نوجوان طلبا تین مختلف اقسام کے شدید دباؤ میں ہوتے ہیں جو تعلیمی، خاندانی اور سماجی ہیں۔

نے یہ بھی دیکھا کہ طلبا میں بڑھتی ہوئی بے چینی اورخودکشی کے رحجان میں اضافہ زیادہ تر چترال اور مالا کنڈ جیسے ٹھنڈے علاقوں میں ہوا ہے۔

ہم انوسٹی گیٹس کو ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ جن میں تعلیمی بورڈ کی غفلت نمایاں تھی۔ اس ضمن میں مشال کی مثال دی جاسکتی ہے جس کے ساتھ تعلیمی بورڈ نے ناانصافی کی اورنتیجتاً اس نے خودکشی کی کوشش کی مگر اللہ کا شکر کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوئی اورزندگی کی طرف لوٹ آئی۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے 2017 کے درمیانی عرصے میں گلگت اور غذر میں 147 افراد نے خودکشیاں کیں جن میں 79 نوجوان طلبا تھے۔

ہم انوسٹی گیٹس کو ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق مالا کنڈ ڈویژن میں 2016 کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 168 افراد نے خود کشی کی جن میں 18 طلبا تھے۔


متعلقہ خبریں