سعودی عرب کی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تصدیق



دبئی/واشنگٹن: سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں جھگڑے کے دوران مارے گئے اور اس معاملے پر حکومت نے دو سینئیر اہلکاروں کو برطرف کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز کی رپورٹ کے مطابق سعودی اعتراف دو ہفتوں کی تردید اور سعودیہ کے مغربی حلیفوں کی جانب سے خاشقجی کی گمشدگی پر وضاحت دینے کے بڑھتے مطالبات کے بعد سامنے آیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافی کے قتل پر سعودی عرب کے  تازہ موقف کو قابل اعتبار قرار دیا ہے۔

سعودی عرب کی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان نے اس واقعے پر دو سینئیر اہلکاروں کی برطرفی کا حکم دیا ہے جن میں سعودی شاہی عدالت کے مشیر سعود القہتانی اور ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد انصاری شامل ہیں۔  سعود القہتانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بہت قریبی ہیں۔

سعودی اعلان پر ٹرمپ کا ردعمل

دوسری طرف سعودی عرب کے اعلان پر اپنے ردعمل میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یہ ایک اچھا پہلا قدم ہے اور یہ بڑا اقدام ہے۔ بہت سارے لوگ ملوث ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ بہت ہی اچھا پہلا اسٹپ ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب امریکہ کا عظیم اتحادی ہے اور جو کچھ ہوا وہ ناقابل قبول ہے۔  اگرچہ ٹرمپ نے سعودی موقف کو قابل اعتبار قرار دیا تاہم بہت سے امریکی قانون سازوں کے لیے یہ ناقابل قبول اور ناقابل اعتبار ہے۔

سعودی صحافی خا شقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ صحافی کی گمشدگی کے کچھ دن بعد ترکی کا موقف سامنے آیا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ خاشقجی کو قونصلیٹ کی بلڈنگ کے اندر مار دیا گیا تاہم سعودی عرب ترکی کے اس موقف کی ابھی تک تردید کر رہا تھا۔

دوسری طرف سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے ایک بیان میں کہا کہ سعودی قونصلیٹ میں خا شقجی اور جو لوگ ان سے ملے ان کے درمیان جگھڑا ہوا جو کہ صحافی کے قتل پر منتج ہوا۔  بیان میں کہا گیا ہے کہ قتل کی تحقیقات جاری ہے اوراس سلسلے میں 18 سعودی شہری گرفتار ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور امریکی رہائشی خاشقجی کی گمشدگی کے بعد مغرب کی طرف سے سعودی عرب پر دباؤ بہت بڑھ گیا تھا کہ وہ اس گمشدگی کے بارے میں قابل اعتبار وضاحت دے۔

سعودی اعلان سے پہلے ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب پر پابندیاں لگانے پر عور کر سکتے ہیں تاہم انہوں نے سعودیوں سے بہت زیادہ فاصلہ بھی پیدا نہیں کیا اور کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثرکو روکنے کے لیے سعودی عرب کا کرداربہت اہم ہے۔

دوسری طرف سعودی اعلامیہ پر وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ سعودی اعلان انہوں نے دیکھا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ  وائٹ ہاؤس اس معاملے پر انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کرتا رہے گا اور انصاف بروقت، شفاف اور تمام قانونی عمل کے مطابق ہو تاہم امریکی قانون سازوں نے سعودی وضاحت پر شک کا اظہار کیا ہے۔

امریکی سینیٹرز نے سعودی وضاحت مسترد کردیں

ٹرمپ کے حلیف امریکی سینیٹر لِنڈسے گراہم کا کہنا ہے کہ یہ کہنا کہ مجھے سعودی عرب کی وضاحت پر شبہ ہے میرے تحفظات کی شدت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔  ڈیموکریٹک سینیٹر رچرڈ بلیومنتھل نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ سعودی وضاحت پر مکمل طور پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ خا شقجی کے قتل کی بین الاقوامی تفتیش ہونی چاہیے۔

ترک ذرائع نے رائٹر کو بتایا کہ ان کے پاس خاشقجی کے سعودی قونصلیٹ کے اندر قتل کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے ترکی کے حکومت کی حامی اخبار ‘یعنی شفق’ نے اس مبینہ آڈیو ٹیب کی تفصیلات شائع کردی ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قاتلوں نے پہلے ان کی انگلیاں تفتیش کے دوران کاٹ دیں اس کے بعد اس کا سر الگ کیا اور پھر ان کے جسم کے ٹکڑے کیے۔

جمال خاشقجی کی گمشدگی نے شہزادہ محمد بن سلمان کی شہرت کو خراب کیا اور ان کی لیڈرشپ کے بارے میں سنجیدہ سوالات پیدا کیے۔ سعودی سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان نے روزمرہ حکومتی معاملات چلانے کی زمہ داری اپنے بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کے حوالے کی تھی لیکن اس بحران نے شاہ سلمان کو مداخلت پر مجبور کردیا۔

ولی عہد نے قتل کا حکم نہیں دیا: سعودی سرکاری ذرائع

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق شاہ نے مملکت کے انٹیلیجنس سروس کی تنظیم نو کے لیے ولی عہد کی سربراہی میں وزارتی کمیٹی بنانے کی منظوری دی ہے۔  سعودی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ولی عہد کو خا شقجی کے قتل پر منتج ہونے والے آپریشن کی تفصیلات کا علم نہیں تھا۔ ذرائع نے رائٹر کو بتایا کہ محمد بن سلمان کی جانب سے صحافی کے قتل اور یہاں تک کہ انہیں اغوا کرنے کا حکم بھی نہیں دیا گیا تھا۔

سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ خاشقجی کی لاش کا پتہ نہیں ہے کیونکہ لاش ایک مقامی معاون کے حوالے کی گئی تھی۔ استنبول میں خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کرنے والے ترک پراسیکیوٹرز نے سعودی قونصلیٹ کے ترک اہلکاروں سے تفتیش کی ہے۔

صحافی کے لاش کی تلاش میں ترک پولیس نے استنبول کے مضافات میں ایک جنگل اور بحیرہ مرمرہ کے قریب ایک شہرمیں سرچ آپریشن کیا۔ مذکورہ آپریشن قتل کے دن قونصلیٹ اور سعودی قونصل جنرل کے گھر سے نکلنے والے کاروں کے راستوں کو ٹریس کرنے کے بعد کی گئی۔

تفتیش کاروں نے سعودی قونصلیٹ اور قونصل جنرل کے گھر سے خاشقجی کے ڈی این اے کے لیے نمونے بھی حاصل کر لیے ہیں۔

قتل کی آڈیو کسی ملک کے ساتھ شئیر نہیں کی: ترکی

ترکی کا کہنا ہے کہ اس نے قتل کی مبینہ آڈیو کسی ملک کے ساتھ شئیر نہیں کی۔ ترکی نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے مذکورہ معلومات امریکہ کے ساتھ شئیر کیں۔

وزیر خارجہ مولوت چاوش اوغلو نے کہا کہ ترکی تفتیش کے شفاف نتائج پوری دنیا کے ساتھ شئیر کرے گا۔


متعلقہ خبریں