ہم انویسٹی گیٹس: زینب کے قتل سے عمران کی سزائے موت تک


پروگرام ہم انوسٹی گیٹس میں  زینب کی نعش ملنے سے ملزم عمران علی کو سزائے موت ملنے تک کے تمام معاملات کی کہانی پر تفصیلی دستاویزی فلم بنائی گئی۔

ملزم عمران علی کو 21 مرتبہ موت کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ بھی صرف زینب قتل کیس میں جبکہ حاصل معلومات کے مطابق ملزم نے مجموعی طور پر آٹھ بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔

تفصیلات کے مطابق سب سے پہلے مجرم عمران نے نور فاطمہ نامی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا، یہ بات بھی سامنے آئی کہ مجرم سینیما میں فحش فلمیں دیکھ کر قصور کی معصوم بچیوں کو نشانہ بناتا تھا۔

اسی طرح مجرم نے عائشہ آصف کو بھی اغواہ کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کر دیا۔ عائشہ کے والد کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیق میں جن لوگوں کو پولیس نے ملزم قرار دیا وہ بے گناہ نکلے۔

نور فاطمہ کے کیس میں پولیس نے مبینہ طور پر مدثر نامی شخص کو ملزم قرار دیا اور پولیس مقابلے کے دوران اسے قتل کر دیا۔ فورینزک رپورٹ سے پتہ چلا کہ عمران ہی ایمان فاطمہ کا قاتل ہے۔

مدثر کے مبینہ قتل کی تفتیش شروع ہوئی تو اس کے ورثا کو ڈرایا دھمکایا گیا لیکن ورثا نے کسی نہ کسی طرح مقدمہ درج کرا دیا۔

پولیس کی ناایہلی کی وجہ سے عمران علی آزاد گھومتا رہا اور اس کا اگلا شکار معصوم لائبہ بن گئی۔

کائنات بتول کو نیم مردہ حالت میں پھینک دیا گیا لیکن سانسیں باقی ہونے کے باعث وہ زندہ رہی تاہم کومہ میں چلی گئی۔

اسی طرح علی حمزہ اور ذیشان بھی درندوں کی ہوس کا نشانہ بنے اور ان کو قتل کر کے گھر کے قریب پھینک دیا گیا۔

علی حمزہ اور ذیشان کے کیس میں 17 افراد کو ملزم قرار دیا گیا جن میں سے 11 افراد کو رہا کردیا گیا مگر اب تک قاتل پکڑا نہیں جا سکا۔

علی حمزہ کے والد نے ہم انویسٹی گیٹس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شک کی بنیاد پر معاملہ رفع دفع ہو گیا کیونکہ پولیس نے زیادہ افراد کو کیس میں نامزد کر کے کیس کو کمزور کر دیا تھا۔

ماہرین کے مطابق زیادہ لوگ نامزد کرنے سے پولیس کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ملزمان آزادی کے لیے رشوت دیتے ہیں۔ عدالتی سماعت کے دوران بھی وکیل یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ زیادہ ملزمان کی نامزدگی سے کیس کمزور ہے اور پولیس کا ان میں قاتل کو پکڑنا مشکل ہے۔

ایک ماہر قانون کا کہنا ہے کہ نطام کی کمزوری کی وجہ سے اکثر اوقات ایسے درندے آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ بروقت نہ ہونے سے ثبوت مبہم ہو جاتے ہیں جس کا فائدہ اصلی مجرم کو جاتا ہے اور موثر شواہد نہ ہونے پر کیس کمزور ہو جاتے ہیں۔

اس دوران مبینہ طور پر رضوان کے ہاتھوں سات سالہ پھول زیادتی کا نشانہ بنی اور خود رضوان پولیس مقابلے کا نشانہ بن گیا۔ مبینہ طور پر رضوان کے گھر والوں نے اس کے ساتھ مل کر نعش کو چھپایا تھا۔

آمنہ شہزادی کو تو اس کے خالہ زاد بھائی فرحان نے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ ملزم پھر اہل خانہ کے ساتھ مل کر مقتولہ کو ڈھونڈنے کا ناٹک بھی کرتا رہا۔

سابق جج فخر النسا کھوکھر کا کہنا ہے کہ زینب کے قاتل کو سزا تک پہنچانے سے پہلے کتنے ہی بچے زیادتی کا نشانہ بن گئے، اس سے ہمارے معاشرے کی بے حسی اور کرمنل جسٹس سسٹم کی ناکامی واضح ہوتی ہے۔


متعلقہ خبریں