غداری کیس،عدالت کا درخواست گزار سے 12نومبر کو دلائل دینے کا حکم


لاہور: سابق وزرائے اعظم نے بغاوت کے مقدمہ میں اپنے جوابات عدالت میں جمع کرا دیے ہیں۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے 12 نومبر کو دلائل دینے کا حکم دے دیا ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی فل بینچ نے بغاوت کے مقدمہ کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور صحافی سرل المیڈا عدالت میں پیش ہوئے تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف نیب کورٹ میں پیشی کے لاہور ہائی کورٹ میں پیش نہ ہوسکے۔

نواز شریف کے وکیل نے عدالت میں جواب جمع کرایا گیا تو عدالت نے استفسار کیا کہ نواز شریف خود عدالت کیوں نہیں آئے اُن کو آنا چاہیے تھا اور حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دینی چاہیے تھی تاکہ ہم اس پر فیصلہ کرتے۔

شاہد خاقان عباسی اور سرل المیڈا کی جانب سے بھی عدالت میں اپنے جوابات جمع کرائے گئے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 12 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کا حکم دیا۔

گزشتہ سماعت پر عدالت نے استفسار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے آرٹیکل چھ کے تحت کیا کارروائی کی ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل میاں طارق نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ پیمرا سے متعلق ہے۔

جسٹس مسعود جہانگیر نے ریمارکس دیے کہ پیمرا کا کام تقاریر نشر کرنے سے روکنا ہے۔ آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی وفاقی حکومت کا کام ہے۔ پیمرا کو ہدایت کی گئی تھی کہ انٹرویو کے متعلق تفصیل عدالت کو فراہم کی جائے۔

عدالت نے صحافی سرل المیڈا کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری واپس لیتے ہوئے نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وارنٹ گرفتاری صرف حاضری کو یقینی بنانے کے لیے جاری کیے تھے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے سرل المیڈا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بار بار بلانے پر پیش کیوں نہیں ہوئے۔ صحافی نے جواب دیا کہ انہیں عدالتی سمن موصول نہیں ہوا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں۔

عدالت عالیہ میں اس وقت قہقہے لگے جب جج نے پوچھا کہ کیا میاں نواز شریف پیش ہوگئے ہیں، ان کے وکیل نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا ہم یہاں ہیں، میاں صاحب یہاں ہیں، ہم ہمیشہ یہاں ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے جواب دیا کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

نواز شریف کا انٹرویو

سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک انگریزی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ممبئی حملوں کے لیے پاکستان کے غیر ریاستی عناصر ملوث تھے اور عسکری تنظمیں نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں۔

نوازشریف نے انٹرویو میں سوال اٹھایا تھا کہ بتایا جائے ہم ممبئی حملہ کیس کا ٹرائل کیوں نہیں کر سکے۔

مذکورہ بیان کو بنیاد بنا کرایک  شہری آمنہ ملک نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نواز شریف کا متنازع بیان ملک و قوم سے غداری کے مترادف ہے جب کہ شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی سابق وزیراعظم کو بتا کر حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے سابق وزرائے اعظم کے خلاف بغاوت کی کارروائی کی جائے۔


متعلقہ خبریں