خاشقجی کو باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے قتل کیا گیا، ترک صدر



انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں دو سعودی ٹیمیں شامل ہیں اور انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے قتل کیا گیا۔

منگل کو ترک پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عوام اور خاندان کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قتل ہماری سرزمین پر ہوا ہے اس لیے تحقیقات کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے، انہوں نے انکشاف کیا کہ جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی 29 ستمبر کو کی گئی۔ صحافی کاغذات کی تیاری کے لیے سعودی قونصل خانے گیا تھا جہاں اسے قتل کر دیا گیا۔

ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیقاتی ٹیمیں مکمل شواہد اکھٹے کر رہی ہیں، تحقیقاتی ٹیموں کی جانب سے قونصلیٹ کی حاصل کی گئی فوٹیج میں جس شخص کو باہر آتے دکھایا گیا تھا وہ جمال خاشقجی نہیں تھا۔

ترک صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ قونصل خانے کا ایک اہلکار خاشقجی کا روپ دھار کر باہر آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خاشقجی کے قتل کے دن 15 رکنی سعودی ٹیم قونصلیٹ میں گئی جس میں سعودی جنرلز بھی شامل تھے۔

انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب نے اعتراف کیا ہے کہ خاشقجی کا قتل دو اکتوبر کو ہی کیا گیا تھا، ترکی واضح کر چکا ہے کہ وہ اس قتل پر خاموش نہیں رہے گا اور ذمہ داران کو قانون کے کٹہڑے میں لائے گا۔

ترک صدر نے اپنے خطاب کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خاشقجی قتل کیس میں ملوث ہونے سے متعلق کوئی بات نہیں۔ امریکی تجزیہ کاروں نے اس سے قبل انکشاف کیا تھا کہ محمد بن سلمان نے سعودی صحافی کے قتل کے احکامات جاری کیے۔ جمال خاشقجی محمد بن سلمان کا ناقد تھا اور ان کی بیشتر پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتا تھا۔

خاشقجی قتل کیس، پس منظر

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور سعودی نژاد امریکی رہائشی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانہ میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ صحافی کی گمشدگی کے کچھ دن بعد ترکی کا موقف سامنے آیا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ خاشقجی کو مار دیا گیا تاہم سعودی عرب ترکی کے اس موقف کی متعدد بار تردید کرتا رہا۔

خاشقجی کی گمشدگی کے بعد مغرب کی طرف سے سعودی عرب پر دباؤ بہت بڑھ گیا تھا کہ وہ اس گمشدگی کے بارے میں قابل اعتبار وضاحت دے۔ کئی معربی ممالک نے سعودی عرب میں ہونے والے سرمایہ کاری کانفرنس کا بھی صحافی کے قتل کے معاملہ پر بائیکاٹ کرنے کا اغلان کیا ہے۔

اس سے قبل ترک صدر کے ترجمان ابراہیم کالین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترک حکومت قومی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق جمال خاشقجی کیس کے حقائق سامنے لائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ  ترک تحقیقاتی ٹیموں نے معاملے سے متعلق جامع اور مکمل تحقیق کی ہے، مسئلہ ترکی اور سعودی عرب کے مابین نہیں ہے۔

ابراہیم کلین کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ترک صدر کا موقف پہلے دن سے واضح ہے، معاملے کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

قطری خبر رساں ادارے الجزیرہ کے لیے استنبول سے کام کرنے والی صحافی زینا خودر کا کہنا ہے کہ ترک صدر کے خطاب کا انتظار کیا جا رہا ہے جو یقیناً جمال خاشقجی قتل کیس کی تحقیقات کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگی۔

زینا خودر کے مطابق دو اکتوبر سے جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد ترک صدر نے سخت زبان استعمال نہیں کی نہ ہی کسی کو مورد الزام ٹھہرایا، ان کا رویہ کافی سیاسی رہا لیکن اب ان کا لب و لہجہ اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ وہ معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کے سامنے اصل حقائق لانا چاہتے ہیں۔

ترک تجزیہ کاروں کے مطابق ترک صدر نے جمال خاشقجی کیس کے سلسلے سے میں سعودی بادشاہ سلمان بن عبد العزیز سے کئی ٹیلیفونک رابطے بھی کیے۔

سعودی عرب کا موقف

سعودی عرب نے صحافی کے قتل کے دو ہفتوں تک متعدد بار ان کے قتل کی تردید کے بعد تصدیق کی کہ صحافی جمال خاشقجی ان کے استنبول کے قونصل خانہ میں جھگڑے کے دوران مارے گئے۔

سعودی عرب کی سرکاری میڈیا کے مطابق شاہ سلمان نے واقعے پر دو سینئیر اہلکاروں کی برطرف کر دیا تھا جن میں سعودی شاہی عدالت کے مشیر سعود القہتانی اور ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد انصاری شامل ہیں۔  سعود القہتانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بہت قریبی ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کی موت انتہائی افسوسناک ہے اور اس کے پیچھے افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

امریکہ نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان اس واقع سے پہلے تو لاعلم تھے مگر جب انہیں اس کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً معاملے کی تحقیقات کرنے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا حکم جاری کیا۔

امریکی ردعمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ساتھ جو ہوا وہ ناقابل قبول ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے خاشقجی کی موت کی تصدیق ایک مثبت عمل ہے لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ناقبل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ہمارا اتحادی ہے لیکن اس طرح کے ماورائے عدالت قتل برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

جرمنی کا ردعمل

جرمنی نے سعودی صحافی کے قتل پر سعودی عرب کواسلحے کی فراہمی روکنے کا اعلان کر دیا، جرمنی نے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب کو جمال خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔

فرانس اور نیدر لینڈ کا ردعمل

ترکی میں سعودی سفارت خانے سے لاپتہ اور مبینہ طور پر قتل کیے گئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملہ پر احتجاج کرتے ہوئے فرانس اور نیدرلینڈ کے وزائے خزانہ نے ریاض کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا۔

فرانس کے وزیر خزانہ برنو لی ماری  نے سعودی عرب میں منعقد کی جانے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا ہے۔

فرانسیسی وزیر خزانہ نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی حکام غیرملکی خبر رساں ادارے کے کالم نگار جمال خاشقجی کی دو اکتوبرکو ترکی میں موجود سعودی سفارت خانے میں جانے کے بعد گمشدگی اور ہلاکت کے معاملے پر وضاحت دیں۔


متعلقہ خبریں