ڈیجیٹل کرنسی دہشت گردوں کی معاون ہوسکتی ہے، ایف اے ٹی ایف

بٹ کوائن میں ایک ارب 72 کروڑ سے زائد تاوان کی ادائیگی

اسلام آباد: فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے خبردار کیا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی دہشت گردوں کی معاشی معاونت کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ ان سفارشات کی روشنی میں تیار کی گئی ہے جو جی -20 گروپ نے ترتیب دی تھیں۔

جی -20 کی کانفرنس مارچ میں منعقد ہوئی تھی جس میں وزرائے خزانہ نے شرکت کی تھی۔ جی -20 کے وزرائے خزانہ کے پیش نظر یہ سوال سب سے اہم تھا کہ ڈیجیٹل کرنسی (کرپٹو کرنسی) کو کس طرح روایتی مالیاتی قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جاسکتا ہے؟

وی او اے کے مطابق پیش کردہ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ورچوئل کرنسیوں سے جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کو اپنے سرمائے کی منی لانڈرنگ کرنے کے نئے مواقع ملتے ہیں۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ کرپٹو کرنسی سے غیرقانونی سرگرمیوں کے لیے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل کی حکومتوں کے لیے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ جیسے غیرقانونی کاموں کو روکنے کے لیے کرپٹو کرنسی پہ نگاہ رکھنے کے اقدامات کریں۔

کرپٹو کرنسی کی ’طاقت‘ کے متعلق ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردوں اور مجرمان کے لیے نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔

ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ وہ مجرمان کی ناجائز آمدنی کو منتقل کرنے اور ان کی  غیرقانونی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقہ کار بھی وضع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پیش کردہ رپورٹ میں تمام ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوری طور پر کرپٹو کرنسی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ٹھوس و عملی اقدامات اٹھائیں۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد بین الاقوامی مالیاتی نظام کو شفاف بنانا، رکن ممالک کو قانون سازی کرنے اور قوانین کو نافذ کر نے میں مشاورت فراہم کرنا تھا۔

ایف اے ٹی ایف کا ایک مقصد دہشتگردی کی مالی امداد اورمنی لانڈرنگ کے خلاف قوانین بنانے میں رکن ممالک کی مدد کرنا بھی شامل تھا۔

کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کیا ہے؟

کمپیوٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے الیکٹرانک تجارتی نظام ’ای کامرس‘ کو تخلیق کیا تو ’ڈیجیٹل کرنسی‘ کا تصور وجود میں آیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ای کامرس میں اشیاء یا خدمات کے عوض زر(کرنسی) کی ترسیل ڈیجیٹل کرنسی میں آن لائن کی جاتی ہے۔

وقت کے ساتھ ای کامرس نے الیکٹرانک تجارتی نظام میں ادائیگیوں کے لئے ڈیجیٹل ورچوئل کرنسی ’بٹ کوائن‘ کا تصور پیش کیا۔ جنوری 2009 میں بٹ کوائن نامی کرنسی کو’ساتوشی ناکاموٹو‘ نامی فرضی گروپ یا شخصیت نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔

بنیادی طور پر بٹ کوائن اپنی شناخت ظاہر کئے بناء اشیاء کی خریداری یا خدمات کے بدلے زر کی ترسیل کے لئے دو افراد یا اداروں کے درمیان الیکٹرانک فائلوں کے تبادلوں کا طریقہ کار ہے۔

بٹ کوائن کی نہ کوئی مادی حیثیت ہے، نہ دنیا کے کسی مالیاتی ادارے یا حکومت نے اسے جاری کیا ہے،نہ کوئی باضابطہ اتھارٹی اسے ریگولیٹ کرتی ہے اور نہ ہی اسے کسی ریاست کی ضمانت حاصل ہے۔

کچھ عرصہ قبل مفتی اعظم مصر ڈاکٹر شوقی کا فتوی بھی آ چکا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ڈیجیٹل یا ورچوئل کرنسی میں لین دین شرعاً حرام ہے۔

بٹ کوائین یا دیگر ورچوئل کرنسیوں کی معلومات کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی رجسٹر نہیں ہوتا ہے اس لئے لوگ چھپا کر ٹرانزیکشن کرنے اور خفیہ ترسیل زر کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن کے ایک یونٹ کی قدر میں مارچ 2017 کو اس طرح اضافہ ریکارڈ کیا گیا کہ وہ ایک اونس سونے کی قیمت سے تجاوز کرگیا۔

بٹ کوائن کی قیمت اس دن 1286 امریکی ڈالرز کے مساوی تھی۔ بلوم برگ نے نومبر 2017 کولکھا تھا کہ ’’بٹ کوائن کی قدر 5015 پاؤنڈز کے مساوی پہنچ گئی ہے‘‘۔

محتاط اندازے کے مطابق اپریل 2018 میں لگائےجانے والے ایک محتاط اندازے کے مطابق مارکیٹ میں استعمال ہونے والی ورچوئل کرنسی کی مجموعی مالیت 110 ارب ڈالرز سے بھی تجاوز کرچکی تھی۔

اس قدر پذیرائی کے باوجود تاحال ورچوئل کرنسی کو دنیا کی کسی حکومت، ریاست یا مالیاتی ادارے کی جانب سے اپنائے جانے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

بٹ کوائن کے متعلق عام تاثر یہی ہے کہ منی لانڈرنگ اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث لوگ و گروہ اپنی مذ موم سرگرمیوں کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی عوام کو ان کے اپنے مفاد میں اپریل 2018 میں آگاہ کیا تھا کہ وہ ورچوئل کرنسیوں کے استعمال یا تبادلے کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے گریز کریں تاکہ کسی بھی ممکنہ مالی نقصان یا قانونی کارروائی سے محفوظ رہ سکیں۔


متعلقہ خبریں