کراچی کی ساحلی پٹی آئل سے آلودہ، سانس لینا دوبھر


کراچی: شہر قائد کی ساحلی پٹی تارکول اور آئل سے آلودہ ہو گئی جس کی وجہ سے نہ صرف آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں بلکہ ہر سو پھیلے سخت تعفن کے باعث سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے۔ متاثرہ علاقہ مکینوں میں صحت کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے۔

ہم نیوز کے مطابق چرنا آئی لینڈ سے مبارک ولیج تک سمندر میں پھیلنے والے آئل اور تارکول نے کچھوؤں، ڈولفن اور وھیل فش سمیت دیگر سمندری مخلوق کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے لیکن تاحال متعلقہ حکومتی ادارے صورتحال سے بے خبر ہیں اوران کی جانب سے اس ضمن میں کوئی حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

مبارک ولیج کے کونسلر سرفراز ہارون کا کہنا ہے کہ سمندر میں ڈالے گئے فضلے نے پوری ساحلی پٹی کو خطرناک حد تک آلودہ کر دیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات نہیں اٹھائے تو سمندری حیات تباہ ہو جائے گی۔

ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے سرفراز ہارون نے کہا کہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔

سمندر سے اپنی روزی روٹی پیدا کرنے والے ماہی گیروں نے ہم نیوز سے بات چیت میں مطالبہ کیا کہ حکومت اس فیکٹری یا کمپنی کے خلاف فوری طور پر تادیبی کارروائی کرے جس نے یہ خطرناک فضلہ اس بڑی مقدار میں سمندر کے اندر ڈال کر سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر(ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر معظم خان ماہی گیروں کے خیالات اور خدشات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس بڑے پیمانے پرآئل سمندر میں پھیلا ہے وہ کسی فیکٹری یا کمپنی سے نہیں آسکتا ۔

ڈاکٹر معظم خان کے مطابق بڑے پیمانے پرآئل کسی بحری جہاز، آئل ریفائنری، آئل ٹرمینل سے آسکتا ہے اور یا پھر کسی حادثے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے واضح کیا کہ آئل کہاں سے آیا ہے؟ کی درست تصدیق کےلیے فنگر پرنٹنگ کا سائنسی طریقہ کار موجود ہے جس سے نہایت آسانی سے علم ہو جاتا ہے کہ آئل کہاں سے آیا ؟ لیکن بہرحال یہ ایک طویل پروسیجر ہے۔

ڈاکٹر معظم خان نے تسلیم کیا کہ سمندر میں بہنے والا آئل اگر بیچ سمندر میں ہو تو اس کو نسبتاً جلدی اور بہتر طریقے سے اکھٹا کر کے پانی سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگروہ ساحل پر آجائے تو بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آئل بہہ کر ساحلی پٹی تک آ چکا ہے۔

ہم نیوز کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس مرحلے پر وہ نہیں سمجھتے کہ کسی قسم کے میجر آپریشن کی ضرورت ہے اور یا یہ کہ ساحلی پٹی پر کمرشل سرگرمیوں سمیت فشریز کو بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر معظم خان کے مطابق دوپہر ایک سے دو بجے کے درمیان سمندر میں آئل پھیلنے کی اطلاعات ملیں تو ہم نے اپنی ٹیم روانہ کی ہے جو معلومات اکھٹی کر رہی ہے۔ انہوں بتایا کہ ٹیم کی جانب سے ملنے والی معلومات کی روشنی ہی میں صورتحال واضح ہوسکے گی۔

ڈاکٹر معظم خان کے مطابق اگر کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال درپیش ہوئی تو پاکستان کے پاس ایک بہترین ہنگامی حطاظتی منصوبہ موجود ہے جس پر عمل کرکے درپیش حالات سے نبردآزما ہوا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں انہوں نے تسمان اسپرٹ کی مثال دی جو 2003 میں کراچی ہاربر کے پاس کریک ہوگیا تھا۔

سمندر میں تیل پھیلنے کی خبروں کے بعد سوشل میڈیا پر بعض افراد کی جانب سے کہا گیا کہ جو تیل پھیل رہا ہے وہ  حبکو اور بائیکو آئل ریفائنری کا ہے۔ بائیکو نے اس ضمن میں وضاحت کی ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایسی خبروں میں رتی برابر صداقت نہیں ہے اوران کی تمام انسٹالیشنز محفوظ ہیں۔

27 جولائی 2003 کو کراچی میں یونان کا کمرشل بحری جہاز تسمان اسپرٹ نامی تیل بردار بحری جہاز زمین میں دھنس گیا تھا جس سے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 40 ہزار ٹن خام تیل سمندر میں بہہ گیا تھا۔

یہ تیل آبی حیات اور سمندری جنگلات کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔

وفاقی محکمہ ماحولیات کی اُس وقت کی رپورٹس کے مطابق تیل کا 33 فیصد فضائی آلودگی کا باعث بنا جب کہ تین لاکھ سے زائد افراد بلواسطہ یا بلا واسطہ اس سے متاثر ہوئے تھے۔

محکمہ موحولیات کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق 16 ہزار ٹن تیل چالیس مربع کلومیٹر کی حد تک سمندر کی تہہ میں بیٹھ گیا تھا جس کے اثرات برسوں محسوس کیے جائیں گے۔

 

 

 


متعلقہ خبریں