سعودی عرب کے بعد مزید ممالک سے بھی خوشخبری ملے گی، فرخ سلیم


اسلام آباد: حکومتی ترجمان برائے معیشت و توانائی امور فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ 1947 سے 2008 تک کے 61 سالوں میں پاکستان کا کل قرضہ 6000 ارب روپے تھا اس کے بعد کے دس سالوں میں یہ قرض 30 ہزار ارب روپے ہو گیا۔ موجودہ حکومت کو اتنا بڑا بوجھ ورثے میں ملا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ‘ایجنڈا پاکستان’ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دوست ممالک سے امداد اور پیکجز کے ذریعے آئی ایم ایف کی مذاکراتی طاقت کو کمزور کیا، سعودی عرب کے پیکج کے بعد دوسرے دوست ممالک کی طرف سے مزید خوشخبریاں ملیں گی۔

فرخ سلیم نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی پہلے دن سے ایک ہی موقف تھا۔ پاکستان کو 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کی مدد سے مالی مسائل حل کیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی 38 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ پیش نہیں آیا۔ بجٹ کا خسارہ 2٫2 کھرب کا خسارہ ہے۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ یہ دونوں خسارے کم کریں۔

انہوں نے بتایا کہ پانچ سیکٹرز کو حکومت گیس اور بجلی کی قیمتوں کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور ایکسپورٹرز کے ری فنڈ کا مسئلہ بھی حل کیا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر مکانات کی تعمیر سے معیشت کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔

ماہر معیشت قیصر بنگالی نے کہا کہ موجودہ بحران کی جڑیں 2002 کی معاشی پالیسیوں میں ہیں، 2000 تک ہر 100 ڈالر کی برآمدات پر 120 یا 125 ڈالر کی درآمدات ہوتی تھیں، آج ہر 100 ڈالر کی برآمدات پر 220 ڈالر کی درآمدات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو آتے ہی بتانا چاہیے تھا کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مطلب امریکہ کے پاس جانا نہیں ہے کیونکہ وہاں چین بھی بیٹھا ہے اور دیگر ممالک بھی بیٹھے ہیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ میرے پاس ان فیکٹریوں کی فہرست ہے جو بند ہو چکی ہیں۔ ان کے مالکان نے یا بیرون ملک سرمایہ کاری کی یا اسٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی میں پیسہ لگایا۔ پاکستان کو ہم نے کیسینو اکانومی بنا دیا۔

انہوں نے کہا کہ جو قرضہ 80 کی دہائی میں لیا گیا وہ 90 کی دہائی میں دینا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوران مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومتیں مسلسل مسائل کا شکار رہیں۔

سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ آئی ایم ایف کے آئین کے تحت کوئی سیاسی شرائط عائد نہیں ہوتیں۔ یہ امریکہ یا چین کا ادارہ نہیں بلکہ سب کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے پاس 16 فیصد ووٹنگ پاور ہے، چین اور جاپان کے پاس بھی 6 فیصد ہے جبکہ یورپی یونین کے پاس سات آٹھ فیصد ہے۔ کوئی ایک ملک اپنی بات نہیں منوا سکتا۔

ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ اسد عمر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام تین سال کا ہو گا۔ اس پروگرام پر مستقل مزاجی کے ساتھ عمل پیرا ہونا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہر سہ ماہی کے بعد آپ کا سخت امتحان ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے معیشت کو تواتر کے ساتھ بہتر اور پھر خراب کیا اور یہ عمل بار بار کیا۔ 90 کی دہائی میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے طویل المعیاد منصوبے نہ بنائے جا سکے۔


متعلقہ خبریں