جمال خاشقجی قتل کی تحقیقات خود کریں گے، سعودی عرب

جمال خاشقجی کی لاش سعودی قونصل جنرل کے گھر سے بر آمد|humnews.pk

jamal Khasoggi murder case


ماناما: سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ترک صدر رجب طیب اردوان کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قاتلوں کی تحقیقات سعودی عرب میں ہی کی جائیں گی۔

دورہ بحرین کے دوران مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والے تمام افراد سعودی باشندے ہیں اور اس وقت سعودی قید میں ہیں لہٰذا تحقیقات بھی ہم خود ہی کریں گے۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے جمعے کی شب خاشقجی کے قتل میں ملوث 18 افراد کی حوالگی کے اپنے مطالبے کو دہرایا تھا۔ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ خاشقجی کا معاملے پر ناقدین کا رویہ ایک تماشہ بنتا جا رہا ہے۔

وزیر نے ناقدین سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر سعودی حکومت کی تحقیقات پوری پونے تک سلطنت پر الزامات لگانے سے باز رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی کے قتل میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

جیمز میٹس کی مذمت

اس معاملے پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا کہ جمال خاشقجی کا قتل ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے، یہ معاملہ سفارتی لحاظ سے تمام ممالک کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔ وہ بھی بحرین کے شہر ماناما میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

میٹس نے خاشقجی کے قتل پر انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی خطے میں عدم استحکام کا باعث ہو سکتی ہے۔

خاشقجی قتل کی اصل کہانی

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور سعودی نژاد امریکی رہائشی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانہ میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ صحافی کی گمشدگی کے کچھ دن بعد ترکی کا موقف سامنے آیا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ خاشقجی کو مار دیا گیا تاہم سعودی عرب ترکی کے اس موقف کی متعدد بار تردید کرتا رہا۔

خاشقجی کی گمشدگی کے بعد مغرب کی طرف سے سعودی عرب پر دباؤ بہت بڑھا تو انہوں نے بالآخر یہ تسلیم کیا کہ صحافی جمال خاشقجی ان کے استنبول کے قونصل خانہ میں جھگڑے کے دوران مارے گئے تاہم سعودی حکومت کے کردار کے ترک موقف کی تردید کی گئی۔

امریکہ نے پہلے سعودی وضاحت کو قابل قبول قرار دیا اور پھر اگلے ہی دن اپنے بیان سے مکر گئے اور سچ سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔

مغربی ممالک کا رد عمل بھی سخت تھا، متعدد مغربی ممالک نے سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کے بھی بائیکاٹ کیا۔

سعودی عرب کی سرکاری میڈیا کے مطابق شاہ سلمان نے واقعے پر دو سینئیر اہلکاروں کی برطرف کر دیا تھا جن میں سعودی شاہی عدالت کے مشیر سعود القہتانی اور ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد انصاری شامل ہیں۔


متعلقہ خبریں