ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کا استعفیٰ منظور کرلیا

حکومت اور کے الیکٹرک کا معاہدہ پبلک کیا جائے، ایم کیو ایم پاکستان

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے پارٹی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا استعفی منظور کرلیا ہے۔

اس بات کا اعلان ایم کیو ایم کے سینئر رہنما اور رابطہ کمیٹی کے رکن کنور نوید جمیل نے کراچی میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی اور پارٹی کو فاروق ستار سے تحفظات تھے جو ہمارے درمیان دوریوں کا باعث بنے۔

کنور نوید جمیل کا کہنا تھا کہ پارٹی نے فاروق ستار کو رابطہ کمیٹی سے نہیں کنوینر شپ سے ہٹایا تھا، اگر انہیں کوئی تحفظات ہیں تو وہ درست فورم پر آکر اس کا اظہار کریں، باہر رہ کر بات کرنا صحیح عمل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ایک منظم جماعت ہے، پارٹی ڈسیپلن تحریری شکل میں موجود ہے، ہم سب اس پر عمل کرتے ہیں اور خواہش ہے کہ فاروق بھائی بھی اس پر عمل کریں اور پارٹی کے ساتھ چلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فاروق ستار کو ڈسیپلن کی خلاف ورزی پر متعدد بار قائل کرنے کی کوشش کی گئی، پارٹی کا کوڈ آف کنڈکٹ ہمارے لیے مقدم ہے اور اسی بنیاد پر فاروق ستار کا استعفیٰ منظور کیا گیا۔

فاروق ستار، رابطہ کمیٹی میں تنازع

سابق پارٹی کنوینر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان تنازع اس وقت شروع ہوا جب سینیٹ اتخابات میں انہوں نے اپنے قریبی ساتھی کامران ٹیسوری کا نام ممکنہ سینیٹرشپ کے امیدواروں میں شامل کیا۔

ٹیسوری فاروق ستار کے بہت قریبی سمجھے جاتے تھے، ان ہی تعلقات کے باعث وہ پارٹی میں شامل ہونے کے اگلے چھ ماہ میں رابطہ کمیٹی کے رکن بن گئے۔

پارٹی کے دیگر سینئر رہنما فاروق ستار کی اس ‘اقربا پروری’ پر پہلے ہی نا خوش تھے، سینیٹ انتخابات سے قبل یہ اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔

بعد ازاں رابطہ کمیٹی نے انہیں متفقہ فیصلے کے تحت کنوینر شپ سے ہٹا دیا۔ سندھ ہائی کورٹ اور پھر الیکشن کمیشن نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی۔

شہر میں عام انتخابات کی فضا بنی تو رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار کے درمیان معاملات بہتر ہوگئے لیکن انتخابات میں غیر متوقع نتائج کے بعد ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کیا جبکہ فاروق ستار اپوزینشن جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کرنے چلے گئے۔

گزشتہ ہفتے انہوں نے یہ کہہ کر پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ  اگر بہادرآباد گروپ ان کے مطالبات مانتے ہوئے وہ رابطہ کمیٹی کی 10 فروری والی حیثیت بحال کردے(یعنی انہیں پارٹی سربراہ بنا دے) تو وہ استعفیٰ واپس لے لیں گے۔

رابطہ کمیٹی نے انہیں ایک بار پھر منانے کے لیے رابطے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے سرد مہری کے بعد آج استعفے کو قبول کرلیا گیا۔


ایڈیٹر
متعلقہ خبریں