سردیوں کی سوغات: گاجر کا حلوہ


کھانے کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان کا ورثہ ایک ہی ہے، سرحد کے دونوں پار ایک ہی طرح کے کھانے پسند کیے جاتے ہیں۔ سردی کے موسم کا بھرپور مزہ لینے کے لیے حلوہ جات کا خصوصی استعمال کیا جاتا ہے۔

حلوے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، انہیں دیسی گھی میں بنایا جاتا ہے اور مختلف اقسام کے میوہ جات سے سجایا جاتا ہے۔

سردی کے موسم کا انتہائی لذیذ اور ہر دل عزیز حلوہ گاجر سے بنایا جاتا ہے جسے لوگ نہایت شوق سے کھاتے ہیں لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس قدرتی میٹھے کو اتنا شاہانہ انداز آخر دیا کس نے۔

کہتے ہیں کہ وہ سکھ تھے جنہوں نے گاجر کا حلوہ مغل محلات میں متعارف کرایا, شہنشاہوں کو گاجر کے حولے کا رنگ, خوشبو اور ذائقہ اتنا بھایا کہ اس پکوان کی مٹھاس پوری سلطنت میں دور دور تک پھیل گئی۔

حلوہ عربی زبان کا لفظ ہے اور ثقیل میٹھے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اصلیت میں حلوہ، آٹے یا مختلف میوہ جات کو شکر، مکھن اور دودھ کے ہمراہ بھون کر میٹھے گاڑھے آمیزے کو کہتے تھے۔ عام خیال یہ ہے کہ حلوے کی یہ قسم، مغل سلطنت کے پھیلاؤ کے دوران مشرق وسطیٰ اور ایشیاء کو چک سے تجارت کے نتیجے میں ہندوستان میں متعارف ہوئی۔

مغل سلطنت تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی اور غیر ملکی تاجر انوکھی چیزیں تجارت کے لئے لے کر آتے، نارنجی گاجر بھی ایک ایسی ہی چیز تھی۔

یاد رہے کہ گاجر کا رنگ اصل میں جامنی ہوا کرتا تھا اور یہ افغانستان میں پچھلے پانچ ہزار سالوں سے موجود تھی۔ اس کے علاوہ گاجریں سفید، لال، پیلے اور کالے رنگ میں بھی پائی جاتی تھیں۔

نارنجی رنگ کی گاجریں سترہویں صدی میں نیدر لینڈ کے لوگوں نے ہاوس آف اورینج کے ولیم آف اورینج کے اعزاز میں نارنجی گاجر اُگانے کا فیصلہ کیا۔ بہرحال عام خیال یہ ہے کہ یہ محض اتفاق تھا کہ لال اور پیلی گاجر کے جنیاتی مرکب سے نارنجی گاجر پیدا ہوئی اور اس کا اورینج کے شاہی گھرانے سے کچھ تعلق نہیں۔ نارنجی گاجر دیکھنے میں خوش رنگ‘ زیادہ میٹھی اور بالکل چپچپی نہیں تھی چنانچہ باورچیوں میں جلد ہی پسند کی جانے لگی۔

اپنے عروج پر پہنچی ہوئی مغل سلطنت جو پوری دنیا سے تجارت کرنا چاہتی تھی۔ نارنجی گاجریں‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ تک پہنچ چکی تھیں اور سترہویں صدی میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ جنوبی ایشیاء بھی پہنچ گئیں۔ برصغیر کے خانساماوں کو یہ نئی درآمد شدہ گاجریں اور ان کی مٹھاس پسند آئی چونکہ یہ دور انواع اقسام کے پکوانوں کا دور تھا تو ایسا کیسے ممکن تھا کہ ماہر باورچیوں اور خانساماوں کو آٹے اور میوہ جات کی جگہ گاجر کا حلوہ بنانے کا فیصلہ خیال نہ آتا، یوں یہ حلوہ بنایا اور کھلایا جانے لگا۔

یہ سردیوں کی سبزی تھی، اس موسم میں گاجر کی بہتات پر باورچیوں کو ایک ایسا گرما گرم اور لذیذ میٹھا بنانے کا خیال آیا جسے دن کے کسی بھی حصّے میں کھایا جاسکتا تھا، چاہے کھانے سے پہلے یا بعد میں یا پھر چائے اور دودھ پتی کےساتھ۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاجر کا حلوہ برصغیر کے ہر خاص و عام کی پسند بن گیا۔

موسم سرما میں بازاروں میں سرخ گاجروں کے آنے کے بعد گھروں میں گاجر کا حلوہ بننا شروع ہو جاتا ہے۔ گاجر کے حلوے کے علاوہ دال کا حلوہ، انڈے کا حلوہ اور پیٹھے کا حلوہ بھی بنایا جاتا ہے۔

بازاروں میں بھی مختلف اقسام کے حلوے مٹھائی کی دکانوں پر موجود ہیں جبکہ عوام کی ایک بڑی تعداد سردیوں میں ان دکانوں سے حلوے خریدتی ہے جس میں بڑی مقدار میں کھویا اور خشک میوہ جات ڈالے جاتے ہیں۔

گاجر کا حلوہ گھر میں بھی نہایت آسانی سے بنایا جاسکتا ہے۔آئیے آپ کو گاجر کا مزے دار حلوہ بنانے کی ترکیب بتاتے ہیں۔۔۔

گاجر کا حلوہ
اجزاء:
گاجر(کدوکش) ایک کلو، چینی ایک پیالی، چھوٹی الائچیاں 8 عدد، کھویا 250 گرام، گھی(پگھلا ہوا) ½پیالی، چاندی کا ورق، بادام، پستے(باریک کٹے ہوئے )سجانے کے لیے
ترکیب:
دیگچی میں گاجر، الائچیاں اور چینی ڈالیں اور ڈھکن ڈھانک کر گاجر کا پانی خشک ہونے تک پکائیں۔ اس میں گھی ڈالیں اور خوب بھون کر چولہا بند کردیں، پھر کھویا ملا کر چھوڑ دیں۔ ½گھنٹے کے بعد اچھی طرح سے ملائیں اور ڈش میں نکال لیں۔ مزیدار حلوہ چاندی کے ورق، بادام اور پستے سے سجا کر پیش کریں۔


متعلقہ خبریں