شہباز شریف کے خطاب کے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی


اسلام آباد: قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسلام آباد منتقل کیا تاہم اجلاس ان کے خطاب کے بغیر ہی منگل کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں متعدد اراکین اسمبلی نے اظہار خیال کیا۔

سابق وفاقی وزیر اور ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ہماری حکومت نے  پانی کا ضیاع روکنے کے لئے 20 ارب روپے جاری کئے۔

انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے راولپنڈی، اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کے لئے 75 ارب مختص کیے گئے تھے، یہ منصوبہ بعد ازاں روک دیا گیا۔ احسن ابقال کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے پانی کے حوالے سے متعدد منصوبےدیے تاہم انہیں منی بجٹ میں ڈراپ کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر منصوبہ بندی میرے پاس آجائیں مسئلے کا حل بتاؤں گا، پاکستان کی واٹر پالیسی مسلم لیگ نواز نے بنائی۔

اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ K-4 بہت اہم منصوبہ ہے، ہم نے کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے خاص اقدامات کیے ہیں، پانی کا مسئلہ کسی ایک صوبے، حکومت یا فرد کا نہیں، پوری قوم کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے پی ایس ڈی پی میں 2000 ارب کے منصوبے رکھے گئے لیکن صرف 50 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی، اگر اس وقت پلاننگ بہتر کی جاتی تو یہ مسئلہ اب تک حل ہو سکتا تھا۔

خسرو بختیار کے مطابق صرف کراچی نہیں لاہور میں بھی زیر زمین پانی کی سطح 500 فٹ سے نیچے جا چکی ہے، کھارے پانی کو میٹھا بنانے کی ٹیکنالوجی (ڈی سیلینیشن) کے لیے بھی بہت کام کر رہے ہیں۔

اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پانی کے مسئلے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف سندھ کا نہیں ہے، بلوچستان اور دیگر ملک کے حصوں میں بھی حالات بہت خراب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اعتراف کرنا ہو گا کہ ہم پانی کے مسئلے کو اتنی اہمیت اور توجہ نہ دے سکے جو دینی چاہیے تھی، اب حل تلاش کرنا ہے، دنیا میں ٹیکنالوجی ترقی کر گئی ہے، K-4 واحد حل نہیں ہے، ہمیں ان چیزوں پر بحث کرنی ہو گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کریں نہ کہ ایک دوسرے پر تنقید کریں۔

کشمیر میں بھارتی مظالم پر قرارداد منظور

اجلاس کے دوران وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور کی جانب سے کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور یوم سیاہ سے متعلق قرارداد بھی منظور کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

قرارداد میں ایوان کی جانب سے بھارتی مظالم اور جارحیت کی مذمت کی گئی ہے اور عالمی برادری سے بھارتی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا چاہیئے۔

اس موقع پرعلی امین گنڈا پور نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 90 ہزار افراد کو شہید کیا جا چکا ہے، ایک لاکھ 40 ہزار افراد قید میں ہیں جبکہ 13 ہزار سے زائد کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں، کشمیر میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

علی امین نے کہا کہ 27 اکتوبر 1947 کو بین الاقوامی قوانین کو روند کر کشمیر میں داخل ہوا، اور طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے جدوجہد اور حریت کے لئے لڑ رہے ہیں، انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی ہتھیار اور پیلٹ گنز استعمال کررہا ہے، تمام عالمی اداروں سے گزارش ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرائیں۔

علی امین نے کہا کہ یہ ایوان بھارتی فوج کی دہشتگردی کی شدید مذمت کرتا ہے اور 90 ہزار کشمیریوں کی شہادت پر افسوس اور بھارتی جارحیت و دہشت گردی کی بھی مذمت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگیزیوں کی انکوائری انسانی حقوق کمیشن ست کرائی جائے۔

قبل ازیں اپوزیشن کی جانب سے واک آؤٹ کرنے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس سے پورا سسٹم متاثر ہوگا، مل بیٹھ کر مسائل کا حل کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا نقطہ نظر بہت اہم ہے، حکومت اور اپوزیشن گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہیں، دونوں ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن لیڈرکی اجلاس میں شرکت پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، ان کو اجلاس میں بات کرنے کا پورا حق ہے، اپوزیشن جماعت کو بھی تنقید کرنے کا حق ہے، ایوان کا چلنا حکومت اور اپوزیشن کی ضرورت ہے، ہم اپوزیشن کے نکتہ نظر کو سننا چاہتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا اپوزیشن کو احتجاج کرنا ہے تو ضرور کریں۔

اجلاس کے دوران نو منتخب اراکین اسمبلی نے حلف بھی اٹھایا، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے نئے اراکین سے حلف لیا۔

حلف برداری پر ارکان اسمبلی اور مہمان گیلری میں تالیاں بجانے پر نوید قمر نے اعتراض کیا تو اسپیکر قومی اسمبلی نے تالیاں بجانے سے منع کر دیا۔

اس سے قبل شہباز شریف اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے بذریعہ موٹر وے اسلام آباد پہنچے۔ وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے تو اراکین نے ڈیسک بجاکر ان کا استقبال کیا۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر کو بذریعہ موٹروے لے جانے کا فیصلہ فلائٹ کی عدم دستیابی پر کیا گیا، آج دوپہر لاہور سے پی آئی اے کی صرف ایک پرواز تھی جو منسوخ ہو گئی۔

احتساب عدالت نے اپوزیشن لیڈر کو تین دن کا راہداری ریمانڈ دیا ہے۔


اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے پروڈکشن آرڈر قومی اسمبلی میں کارروائی اور طریقہ کار کے قواعد 2007 کے قاعدہ 108 کے تحت جاری کیے گئے تھے۔

قومی اسمبلی میں کارروائی اور طریقہ کار کے قواعد 2007 کے قاعدہ 108 کے تحت اسپیکر کسی بھی زیر حراست رکن اسمبلی کی موجودگی کو ضروری سمجھتا ہو تو وہ اُسے اجلاس میں شرکت کے لیے طلب کر سکتا ہے۔

شہباز شریف کو پہلے بھی ایک روزہ اسمبلی کے سیشن کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر پر لاہور سے اسلام آباد لایا گیا تھا اور اسمبلی سیشن کے بعد واپس لاہور لے جایا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں