50 لاکھ کے ناشتے کی افواہ بالکل بےبنیاد تھی، ڈاکٹر عارف علوی


اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسکردو کے دورے پر اپنے ناشتے سے متعلق خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ 50 لاکھ کے ناشتے کی افواہ بالکل بے بنیاد تھی۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ندیم ملک لائیو‘ میں میزبان ندیم ملک سے بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اسکردو کے دورے کے دوران وہاں ٹھہرنے کے پیسے انہوں نے خود دیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان ہر چیز کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور اس معاملے کو لے کر عمران خان نے بھی ان سے وضاحت مانگی تھی، وزیراعظم نے میسج کر کے پوچھا 50 لاکھ کا ناشتہ کیسے ہوا؟

ملک میں سیاحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کا شوق رکھتے ہیں، گلگت میں سیاحوں کی تعداد 10 سے بڑھ کر 25 لاکھ ہوگئی، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ملک کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

صدر مملکت کے مطابق انہوں نے پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے اور عہد لیا ہے کہ انصاف سے کام کریں گے۔

اپنی نجی زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے اور پاکستان کے واحد صدر ہیں جو پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئے۔

’بچپن میں والد سے بہت ڈانٹ کھائی‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے والد سخت مزاج جبکہ والدہ بہت ٹھنڈے مزاج کی مالک تھیں، والدہ کو جب غصہ آتا تھا تو انہیں عارف کے بجائے عارف صاحب کہہ کر بلاتی تھیں، بچپن میں والد سے بہت ڈانٹ کھائی۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ یکساں سلوک کے حامی ہیں، صدر کا کام یہ ہو کہ فیڈریشن کو اکھٹا لے کر چلا جائے جس سے مراد تمام پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

’پروٹوکول کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتا ہوں‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پروٹوکول اور سیکیورٹی میں بہت فرق ہے، پروٹوکول سے عوام کو تکلیف ہوتی ہے لیکن سیکیورٹی بہت ضروری ہے، پروٹوکول کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ابھی میں سیکیورٹی اور پروٹوکول کے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

حکومت کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی اب تک کی کارکردگی کافی اچھی رہی ہے، یہ لوگ بہت زیادہ محنت اور جذبے سے کام کر رہے ہیں، ایک سال کے بعد ملکی مسائل بہت حد تک ٹھیک ہوجائیں گے، ہماری حکومت ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی بات کرتی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ راستے ہی بند کر دیے جائیں جن سے ایسی چیزیں ہوتی ہیں۔

ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 80 سے 90 فیصد خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا، علماء کی ذمہ داری ہے کہ اس بارے میں عوام کو تعلیم دیں، خواتین کے وراثت میں حصے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

میڈیا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کو آزاد ہونا چاہیے لیکن برے کو برا کہا جائے، میڈیا میں کو خود اپنے احتساب کا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں