جنوبی پنجاب صوبے کا کیا ہو گا؟


اسلام آباد: پاکساتان تحریک انصاف کی حکومت کے 100 روز میں جنوبی پنجاب صوبہ قائم کرنے کے حوالے سے کچھ سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب محاز خود اس بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

محمد علی درانی کا کہنا تھا کہ جو حکومت تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی ہے تو اسے پسماندہ علاقوں کے لیے سوچنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا شاید وہ سنجیدہ نہیں تھے اور یہ سیاسی لائحہ عمل تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب محاز کے قائدین اس مہم میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔

اس کے بر عکس رانا قاسم کا کہنا تھا حکومت کی جانب سے اچھا قدم اٹھایا گیا۔ ان کا کہنا تھا اس کام کے لیے جو ٹاسک فورس بنائی گئی اس سے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی سیاسی پارٹی اس مہم کو غیر سنجیدہ انداز میں لینا اس قوت برداشت نہیں کر سکتی، پر تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی اس کے لیے ضروری ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے وعدے کے مطابق ٹھیک 100 دن بعد جنوبی پنجاب میں سرائیکی اضلاع میں الگ صوبہ قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ آئین پاکستان کی روح سے اسمبلی کی دو تہائی اراکین اگر اس بات پر آمادہ ہو جائے تو جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا دیا جائے گا۔

اس حوالے سے  فرحت اللہ بابر  کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم کی نیت صاف ہے تو یہ ممکن ہے۔ فرحت اللہ بابر کا یہ بھی کہنا تھا اس کام کے لیے اسمبلی کے اتحاد کے باوجود اس بات کا کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف کو ہی دیا جائے گا۔

زرتاج گل کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس نقطہ پر انتخابات جیتے کہ وہ سرائیکی صوبہ بنائیں گے پر پھر اس پر کوئی پیش رفت نہ کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے، پر اپوزیشن کو اپنے پرانے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا امتحان ہے کہ وہ اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں۔

9 اپریل کو مسلم لیگ ن کے جنوبی پنجاب کے اراکین نے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ ان میں خسرو بختیار اور جنوبی پنجاب کے کئی نمایاں سیاستدان شامل تھے۔ ان افراد نے اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس طرح جنوبی پنجاب محاز تخلیق کیا گیا اور پھر وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اتحاد کے وقت جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا ایک شرط رکھی گئی۔

اس سیاسی محاذ نے پاکستان مسلم لیگ ن سے علیحدگی کی وجہ اس وقت کی حکومت کا جنوبی پنجاب کو پسماندہ رکھنا بتایا گیا۔ انہوں نے اس بات پر اعتراض اٹھایا کہ لاہور پر پنجاب کے بجٹ کا 50 فیصد سے زیادہ کیوں وقف کیا جاتا ہے۔

جنوبی پنجاب محاز تخلیق کیا گیا تو یہ دیکھا گیا کہ کس سیاسی جماعت کو الگ صوبے کے مطالبے کے ساتھ قبول کرے گا، یہ جماعت تحریک انصاف تھی۔ عام انتخابات کے بعد جب تحریک انصاف حکومت میں آئی تو یہی توقع تھی کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا ہی دیا جائے گا۔

ڈاکٹر نخبہ تاج کا کہنا تھا عمران خان نے جنوبی پنجاب صوبہ پر توجہ دینے میں بہت تاخیر کی اور آئین انتخابات کے دنوں میں جنوبی پنجاب محاز سے اتحاد کیا۔

پنجاب کے تین علاقوں کو سرائیکی صوبہ بنانے کی جد وجہد تین دہائیوں پہلے شروع ہوئی۔ عاشق بزدار جیسے شاعر کا کہنا تھا کہ نام کا اہم نقطہ ہے اس مہم میں۔ ان کا کہنا تھا اس صوبے کا نام سرائیکستان رکھنا عوام کی شناخت کے لیے اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا موئن جو دڑو سے پرانی ثقافت کو اس کا نام کیوں نہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا انگریزوں کی بنائی حدود پر اب تک عمل کیوں کی کیا جا رہا ہے۔

حیدر جاوید کا بھی یہی کہنا تھا کہ نام کا معاملہ قومیت سے منسلک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو موجودہ حکومت سے کوئی توقعات نہیں پر وہ دیکھنا چاہتے کہ یہ حکومت کیا کرتی ہے۔


متعلقہ خبریں