شاعر انقلاب حبیب جالب کی 26ویں برسی


شاعرانقلاب حبیب جالب کی 26ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ حبیب جالب  زندگی بھر بربریت اورظلم کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے رہے۔مصیبتیں جھیلنے کے باوجود وہ ہمیشہ مظلوم کی آواز بنے اورجابرحکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی۔

حبیب جالب جن کا اصل نام حبیب احمد تھا‘ 28 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔

حبیب جالب نے اینگلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے 15 سال کی عمر سے ہی مشق سخن شروع کردی تھی، ابتداء میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کر تے تھے۔ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے حبیب جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو حق بات پر ڈٹ جانے کا درس دیتی ہے۔

حبیب جالب کی شہرہ آفاق نظم ’’میں نہیں مانتا‘‘ ہر عہد کے سیاسی و سماجی رہنمائوں نے شاید ہی کسی جلسے یا جلوس میں نہ سنائی ہو۔ جالب کی شہرہ آفاق نظم کے مصرعے قارئین کی نذر:

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو، صبح بےنور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

اردو شاعری کی  قد آورشخصیت حبیب جالب نے محض پندرہ برس کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کےبعد حبیب جالب کراچی آکرسندھ ہاری تحریک سے وابستہ ہوگئے۔یہی وہ دور تھا جب انہوں نے معاشرتی ناانصافیوں کوانتہائی قریب سے دیکھا اوراپنی نظموں کاموضوع بنایا۔
حبیب جالب کی بیٹی  طاہرہ حبیب جالب  کہتی ہیں کہ ان کے والد انتہاَی شفیق انسان تھے ، کبھی کسی سے نہیں ڈرتے تھے ۔
حبیب جالب بنیادی طورپرکمیونزم کےحامی تھے۔ اسی لیےحبیب جالب نے سابق فوجی آمر ایوب خان ، یحیٰی خان  اور ضیا الحق کے دور میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔

حبیب جالب اپنی انقلابی  فکرکے تحت آخری دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانےکے لیے آواز بلند کرتےرہے۔

یہ بھی پڑھیے:چھوٹی بحر میں شاعری کرنے والے بڑے شاعر کی برسی

معروف شاعر وصی شاہ کہتے ہیں کہ حبیب جالب نےنئی نسل کو ظلم کے خلاف علم جہاد بلند کرنےکا حوصلہ دیا۔حبیب جالب ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ، ان کی شاعری ہمارے لئے سوچنے کا ذریعہ ہے۔ حبیب جالب کے شعروں کی صورت وقت کے آمروں کو للکارنے والی ایک توانا آواز آج بھی تازہ ومعطر ہے۔ حبيب جالب نے  دکھ ضرور سہے مگر کبھی تاريکی کو روشنی اور باطل کو حق نہیں کہا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے درباروں سےصعوبتيں اور کچے گھروں سےہمیشہ  چاہتيں سميٹیں ۔


متعلقہ خبریں