ایشیا: لاک ڈاؤن کےباعث گھریلو تشدد میں اضافہ

ایشیا: لاک ڈاؤن کے سبب گھریلو تشدد میں اضافہ

فائل فوٹو


کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کے باعث لوگ گھروں میں رہ رہے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، لیکن گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

ملائیشیا کی وومن، فیملی اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کی وزارت نے خواتین کو لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں اچھا لباس پہننے اور گھر کے مردوں کو پریشان نہ کرنے کی سفارش کی جس نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچادی اور حکام کو معذرت کے ساتھ اپنی سفارشات واپس لینا پڑیں۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتیرس کے مطابق جس طرح معاشی ومعاشرتی دباؤ اور خوف بڑھ رہا ہے، گھریلو تشدد میں بھی خوفناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ کچھ ممالک میں سپورٹ سروسز میں کال کرنے والی خواتین کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔

عام حالات میں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو مدد فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم نقل و حرکت پر پابندی کے سبب ان وسائل تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔

بھارت کے نیشنل کمیشن برائے خواتین کے مطابق، کوویڈ۔19 لاک ڈاؤن کے دوران ایک  ہفتے میں اسی مقصد سے بنائی گئی ایک ہیلپ لائن این سی ڈبلیو کو 69 کالیں موصول ہوئی ہیں۔

انڈونیشیا میں بھی خواتین کو گھریلو ذمہ داریوں کی غیرمساوی تقسیم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین کو گھر سے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سرانجام دینے کے علاوہ گھریلو کام اور بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس عمل سے ان کے کام میں حد درجہ اضافے کے ساتھ جسمانی اور ذہنی تھکن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جانب سے 2019 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایشیاء کے ممالک میں گھریلو مزدوری کے لئے صنفی امتیاز زیادہ ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں خواتین بغیر معاوضہ گھریلو نگہداشت میں روزانہ اوسطا 272 منٹ اور مرد 27 منٹ اور دیہی علاقوں میں خواتین 295 منٹ اور مرد اسی کام میں صرف 28 منٹ صرف کرتے ہیں۔ جبکہ انڈیا کے شہری علاقوں میں خواتین روزانہ اوسطا 312 منٹ اور دیہی علاقوں میں یہ تعداد روزانہ 291 منٹ تھی۔ اس کے مقابلے میں مرد انہی کاموں پر صرف 29 سے 32 منٹ صرف کرتے ہیں۔

ذہنی صحت کے ماہرین اور آن لائن تھراپی سیشن مہیا کرنے والے ماہرِنفسیات کے مطابق لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

آن لائن مشاورت اور تھراپی پلیٹ فارم ریلیوناؤ کی سی ای او آمنہ آصف کا ایک نجی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان کے مریض اپنے آن لائن سیشنوں کو ادھورا چھوڑ رہے ہیں جس کی بڑی وجہ زیادتی اور تشدد کرنے والے افراد کا گھر میں ہر وقت موجود رہنا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیف زہرہ یوسف کے مطابق، گھریلو زیادتی کے واقعات میں اضافے کی واحد وجہ مالی افسردگی نہیں ہے اور اس صورتحال میں بچے بھی اس خطرے سے غیر محفوظ ہیں۔ اس سے متعلق انسانی حقوق کی وزارت کی جانب سے 30 مارچ کو ایک ٹویٹ میں بھی خواتین اور بچوں کو گھریلو زیادتی اور تشدد سے بچانے کے لئے ہیلپ لائن اور فون نمبر مدد کے طور پر دیا گیا۔

ذہنی صحت کے ماہرین کے مطابق ایسے میں ذہنی مرض میں مبتلا افراد کا خودکشی کی طرف رجحان بڑھ جاتا ہے۔ گھروں میں مسلسل قید رہنے سے ان کی ذہنی حالت پہلے کی نسبت زیادہ خراب ہونے کے خدشات ہیں۔

باقاعدگی سے آن لائن تھراپی سیشن لینے والے افراد بھی بات کرنے سے گھبراتے ہیں جس کی وجہ ان کے گھر کے باقی افراد ہیں جو کسی نفسیاتی ماہر سے ذہنی تندرستی کے لئے بات کرنے کو غلط سمجھتے ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل سے لیکر تیزاب حملوں تک، پاکستان میں گھریلو زیادتی کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ درست اعداد و شمار کی غیر موجودگی کے باعث ایک اندازے کے مطابق 70 سے 90 فیصد پاکستانی خواتین کسی نہ کسی جسمانی، جذباتی یا نفسیاتی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ زیادہ تر اس میں ان کے قریبی رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ازدواجی تعلقات میں جسمانی تشدد کے واقعات ہمیشہ نفسیاتی زیادتی سے شروع ہوتے ہیں۔

وبائی بیماری نے تشدد اور زیادتی کرنے والوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے۔ جسمانی زیادتی کے لئے طبی امداد کی ضرورت پڑنے پر ہسپتال جانے سے گریز کئے جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور گھر میں رہنے کے علاوہ دوسری راہ نہیں ہے۔ عدالتیں بھی بند ہیں اور قانونی مدد کے ڈیجیٹل نا ہونے کا مطلب خواتین کو تحفظ کی عدم فراہمی ہے۔ گھریلو زیادتیوں کو آج بھی ایک ذاتی مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ ہمارا معاشرتی نظام ہے جہاں گھریلو زیادتیوں پر آواز اٹھانے اوراس کیلئے کسی قسم کے قانونی اقدام کو نامناسب سمجھا جاتا ہے۔

 


متعلقہ خبریں