پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں کوئی بڑا منصوبہ مکمل نہ کر سکی


پشاور: تبدیلی کے نعرے کے ساتھ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے والی تحریک انصاف پانچ سالہ ہنگامہ خیز دور میں ایک بھی بڑا منصوبہ مکمل نہیں کر سکی تاہم اصلاحات لانے میں کسی حد تک کامیاب رہی ہے۔

خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالتے ہی دعووں اور وعدوں میں باقی صوبائی حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا لیکن اب اقتدار کا سورج غروب ہورہا یے تویہی دعوے اور وعدے اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اعلان کردہ بلین ٹری سونامی کے تحت صوبے میں ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ ابتدا سے ہی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت خیبرپختونخوا میں اس منصوبے کے تحت صرف 23 کروڑ درخت اور پودے لگا سکی ہے۔

مواصلات کے شعبے میں پی ٹی آئی کے میگا پراجیکٹس شمار کیے جانے والے سوات ایکسپریس وے اور پشاورمیں ریپیڈ بس منصوبے کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی اپنے دور حکومت میں ان دونوں منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی ہے۔

بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے عمران خان نے خیبرپختونخوا میں 350 چھوٹے ہائیڈل پراجیکٹس لگانے کا اعلان کیا تھا مگر یہ اعلان بھی عملی جامہ نہ پہن سکا اور پی ٹی آئی کی حکومت خیبرپختونخوا میں اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ایک درجن سے بھی کم ہائیڈل پراجیکٹس مکمل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ ان پراجیکٹس سے 74 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

صوبے میں پولیس، تعلیم اور کسی حد تک صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے میں پی ٹی آئی کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔

خیبرپختونخوا میں پہلی بار محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ کرکے پولیس آرڈر2016 کی منظوری دی گئی جس سے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کوتقرری اور تبادلوں میں با اختیار بنایا گیا۔ میرٹ پر شفافیت سے بھرتیوں کے لیے کانسٹیبل لیول تک بھرتی کو این ٹی ایس سے منسلک کیا گیا۔ اس کے علاوہ صوبے میں صحیح معنوں میں سزا اور جزا کا نظام نافذ کر کے کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کرنے پر کانسٹیبل سے لے کر ڈی پی او سطح تک کے چار ہزار سے زائد اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی گئی۔ ان تمام اقدامات کی وجہ سے تھانوں کے ماحول اور پولیس کے عوام کے ساتھ رویے میں بہتری آئی۔

خیبرپختونخوا میں تعلیم کے شعبے میں پہلی بار 40 ہزار اساتذہ کی تقرری این ٹی ایس کے ذریعے عمل میں لائی گئی ہے۔ مانیٹرنگ کے لیے صوبے میں موثر نظام متعارف کرایا گیا جس کے ذریعے کھوج لگا کر لاکھوں گھوسٹ ملازمین کو گھر بھیج دیا گیا۔ صوبے میں سخت قوانین نافذ کرکے اساتذہ کی حاضریاں یقینی بنائی گئی ہیں۔ تاہم سرکاری اسکولوں میں سہولیات کے مسائل بدستور موجود ہیں۔ جب کہ صوبہ بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا وعدہ بھی ان پانچ سالوں میں پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔

صحت کے شعبے میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن (ایم ٹی آئی) ریفارمزایکٹ کے تحت بڑے سرکاری اسپتالوں کو خود مختاری دے کر اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش  ضرور کی گئی ہے لیکن یہ تجربہ تاحال ناکام ثابت ہورہا ہے۔ البتہ پانچ سالوں میں آٹھ ہزار سے زائد نئے ڈاکٹرز بھرتی کرکے مراکزصحت میں طبی عملے کی کمی پر کافی حد تک قابو پایا لیا گیا ہے۔ دورافتادہ علاقوں میں تعیناتی پرڈاکٹروں کے لیے اضافی تنخواہوں اور مراعات کا اجرا بھی انقلابی قدم ثابت ہوا ہے۔


متعلقہ خبریں