پنجاب میں اب بھی 69 لاکھ بچے چائلڈ لیبر پر مجبور


لاہور: بچوں سے جبری مشقت کرانے کیخلاف قوانین موجود ہے لیکن حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب بھی صوبہ بھر میں انہتر لاکھ بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں۔

سماجی کارکن کہتے ہیں صوبائی قوانین کے بجائے قومی پالیسی مرتب کرنے کے ساتھ بچوں کو حقوق بارے آگاہی فراہم کی جائے، بچے کسی بھی ملک و قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، اگر بچے تعلیم کے بجائے، محنت مزدوری پر مجبور ہو جائیں تو، کسی بھی ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے

یونیسیف اور صوبائی حکومت کے سروے کے مطابق،، پنجاب میں انہتر لاکھ بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں۔ ان میں سے چالیس لاکھ بچے پندرہ سال سے کم عمر ہیں، یہ بچے کام کے دوران تشدد کا نشانہ بھی بنتے ہیں، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس لاہور میں ایک سال کے دوران چائلڈ لیبر کے حوالے سے چھ سو سے زائد شکایات موصول ہوئیں، جن میں بچوں پر تشدد کی ایک سو سے زائد شکایات موجود تھیں۔

ممبر نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس ندیم اشرف کے مطابق پندرہ سال سے کم عمر چالیس لاکھ بچوں کا چائلڈ لیبر میں ہونا پریشان کن ہے، ڈومیسٹک چائلد لیبر کے درست اعداد و شمار تو موجود ہی نہیں۔

چائلڈ لیبر کیخلاف سرگرم سرچ فار جسٹس تنظیم کے سربراہ افتخار مبارک جبری مشقت کے خاتمے کیلئے پاکستان پینل کوڈ میں ترامیم پر زور دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے،، ہر صوبے نے اس بارے اپنے قوانین اور سزائیں مقرر کر رکھی ہیں، تاہم قومی پالیسی تشکیل دے کر ہی اس ناسور کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے،،، چلڈرن لاء ایکسپرٹ مقداد نقوی کے مطابق قومی سطح پر قانون بنایا جائے تو ہی چائلڈ لیبر میں کمی ممکن ہے،، انیس سو چھیانوے کے بعد پہلی بار لیبر اینڈ ہیومن ریسورس نے رپورٹ جاری کی ہے۔

سوشل ورکرز اور معروف این جی او چلڈرن ایڈووکیسی نیٹ کے نمائندہ راشدہ قریشی کے مطابق بچوں میں چائلڈ لیبر سے متعلق آگاہی کے علاوہ قانون سازی مین ان کی رائے کو بھی شامل کیا جانا چائیے۔ چلڈرن رائٹس ایکٹیوسٹ ضھوٓاہ نورے فاطمہ کہتی ہیں کہ نئی ہاوسنگ سوسائٹیز کو پابند بنایا جائے کہ وہ گھروں میں چائلڈ لیبر روکنے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حکام کا کہنا ہے چائلڈ لیبر سے متعلق پالیسی کیلئے سفارشات وزیراعلی کو بھجوا دی ہیں، پنجاب پہلا صوبہ ہو گا، جس کی اپنی پالیسی ہو گی۔ پالیسی میں گائیڈ لائن واضح ہوگی، کہ کن امور پر کام کیا جائے گا اور سزاوں پر عملدرآمد کیسے ممکن بنایا جائے گا
ماہرین کہتے ہیں، معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کے لئے ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے جہاں وہ تعلیم کے ساتھ کوئی ہنر سیکھیں اور اپنے خاندان کی کفالت بھی کر سکیں اور معاشرے کے ایک باشعور فرد کے طور پر ابھر کر سامنے آسکیں۔

 


متعلقہ خبریں