اربوں روپے بجٹ کے باوجود سندھ میں تعلیم ابتری کا شکار


کراچی: گزشتہ مالی سال میں صوبہ سندھ کا تعلیمی بجٹ 202 ارب روپے رکھا گیا تھا اس کے باوجود صوبے میں تعلیم کی ابتر حالت میں کوئی بہتری نہیں آسکی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن سندھ کی جانب سےجاری کردہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں کل 48 ہزار 677 سرکاری اسکول موجود ہیں جس میں سے43 ہزار اسکولوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا۔ جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق صوبے کے تقریباً 13 ہزار اسکول بند ہیں۔ اسکولوں میں ایک لاکھ 23 ہزار 356 اساتذہ میں سے 25 ہزار کے قریب اساتذہ  حاضر ہیں، 1773 اساتذہ چھٹیوں پر ہیں جب کہ گھوسٹ اساتذہ کی تعداد دو ہزار ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ صوبے میں سب سے زیادہ گھوسٹ ٹیچرز6.7 فی صد جام شورو، 5.2 فی صد گھوسٹ ٹیچرز ٹنڈو محمد خان اور 3.8 فی صد گھوسٹ ٹیچرز کا تعلق شکار پور سے ہے۔ ان تینوں اضلاع سے منتخب ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کا تعلق حکومتی جماعت پیپلزپارٹی سے رہا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ بھرکے اسکولوں میں کل 30لاکھ 99 ہزار657 طلبہ کا اندراج ہے جس میں سے 16 لاکھ 48 ہزارطلبا وطالبات اسکول میں موجود ہیں جب کہ 14 لاکھ 51 ہزار 659 طلبہ اسکولوں سے مستقل غیر حاضر ہیں۔ اسی طرح سندھ کے 43 ہزار اسکولوں میں 36 ہزار غیر تدریسی عملہ موجود ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے جو قوانین پاس کیے گیے ہیں ان پرفوری عمل درآمد کروانے کی شدید ضرورت ہے۔

سابق ڈائریکٹرایجوکیشن نے سندھ میں تعلیم کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ بڑھانے کے باوجود تعلیمی حالت  زار بہتر نہیں بنائی جاسکی ہے۔

سابق وزیر تعلیم جام مہتاب ڈاہر کہتے ہیں کہ گھوسٹ ملازمین کی فہرست تیار  کرکے مختلف اخبارت میں شائع کی گئی ہے۔ 15 دن میں اگر ملازمین کی جانب سےکوئی جواب نا ملا تو ان کی آئی ڈی  بند کرکے انہیں  نوکری سے برخواست کر دیا جائے گا۔


متعلقہ خبریں