پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر آئی ایم ایف کے خدشات


بالی: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے چیف اکنامسٹ مارس آبسفیلڈ نے کہا ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری میں پاکستان کے لیے جہاں فوائد موجود ہیں وہاں اس کے نقصانات کا خدشہ بھی ہے۔

یہ بات انہوں نے بالی میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اوبسٹفیلڈ کی رائے میں پاکستان کو مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور اصل مالیت سے زائد قدر کی حامل کرنسی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ابھی تک آئی ایم ایف سے مالی معاونت کے لیے باقاعدہ طور پر رابطہ نہیں کیا۔ اگر اس سلسلے میں مذاکرات ہوئے تو آئی ایم ایف کی پوری کوشش ہو گی کہ پاکستان کو اس کی مکمل صلاحیت کے اعتبار سے ترقی کرنے میں مدد دے۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے پیر کے روز کہا ہے کہ حکومت اس ہفتے بالی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہنگامی مالی امداد کے لیے مذاکرات شروع کرے گی۔

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کے بجائے متبادل ذرائع کو بروئے کار لانے کی پوری کوشش کی تھی کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام مختلف قسم کی حدود و قیود لگاتا ہے اور یہ ان کے اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کو متاثر کرتا ہے۔

چیف اکنامسٹ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں بنیادی اصلاحات کی جائیں تاکہ آئی ایم ایف سے امداد در امداد کا سلسلہ ختم ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ انفراسٹرکچر کو ترقی دے، اس سلسلے میں مختلف پراجیکٹس پر سرمایہ کاری کے لیے چین سے مدد بھی لی جا سکتی ہے لیکن اس میں خطرات بھی پوشیدہ ہیں۔

اس تناظر میں انہوں نے تجویز پیش کی ایسے مہنگے قرضوں سے بچنا چاہیئے جن کی ادائیگی میں بعد ازاں دشواری پیش آئے۔

انہی وجوہ کے پیش نظر پاکستان نے چین کے سب سے بڑے منصوبے ’شاہراہ ریشم‘  کی تعمیر کو محدود کر دیا ہے جس کے  تحت  دو بلین ڈالر کی لاگت سے کراچی اور پشاور کے درمیان ریلوے ٹریک تعمیر ہونا تھا۔  پاکستان کا یہ قدم  چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر نظر ثانی کی ایک کڑی ہے۔

اسی طرح ٹرمپ حکومت کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے کافی تحفظات ہیں۔ ان کی رائے میں اس کے ذریعے بعض ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں پھنسانا ہے جس کو وہ واپس نہ کرسکیں۔

چینی حکومت کی جانب سے مسلسل امریکی الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) نے پاکستان پر کوئی اضافی بوجھ نہیں ڈالا ہے بلکہ معاشی ترقی میں مدد دی ہے۔


متعلقہ خبریں