مقبوضہ کشمیر :بھارتی غاصبانہ قبضے کے101ویں دن کی صورتحال

فوٹو: فائل


سری نگر: مقبوضہ جموں و کشمیر میں مواصلاتی نظام خصوصا انٹرنیٹ پر مسلسل پابندی کے خلاف کشمیری صحافیوں نے احتجاج کیا۔کشمیر میں پریس کلب کے صحن میں جمع ہوکر مقامی، ملکی و غیر ملکی صحافتی اداروں سے منسلک نامہ نگاروں نے کشمیر میں جاری مواصلاتی پابندی کے خلاف خاموش احتجاج کیا۔

دفعہ 370کی منسوخی اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام خطوں میں تقسیم کرنے کے بعد جہاں وادی کشمیر میں سخت ترین پابندیاں عائد کی گئیں وہیں مواصلاتی نظام بشمول انٹرنیٹ کو بھی معطل کیا گیا جس سے وادی کے سبھی شعبہ ہائے فکر سے وابستہ افراد خصوصاً صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پانچ اگست کو جموں و کشمیر کے خصوصی تشخص کے خاتمے کی ساتھ ہی مرکزی سرکار نے وادی کے سرکردہ علیحدگی پسند رہنماوں کے ساتھ ساتھ تمام تر بھارت نواز سیاستدانوں کو بھی قید کردیا۔

مین اسٹریم سیاسی لیڈران کو قید کر دینے سے کشمیر میں سیاسی بحران پیدا ہوا ہے اور آج 100 ایام کے بعد بھی جاری ہے۔سیاسی رہنما 100دنوں سے لگاتار قید میں ہیں۔

مین اسٹریم سیاسی قیدیوں میں سابق وزرائے اعلی عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی اور سرینگر سے موجودہ رکن پارلیمان اور تین بار وزیر اعلی رہنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ، علیحدگی پسند سیاست سے مین اسٹریم سیاست میں قدم رکھنے والے سجاد غنی لون، سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل وغیرہ شامل ہیں۔

حکومت نے ان قیدیوں میں تین سابق اسمبلی ممبران بشمول پی ڈی پی کے نور محمد، یاور میر اور گارنگریس کے شعیب نبی لون کو دو مہینے کے بعد اس شرط پر رہا کیا کہ وہ امن و امان میں رخنہ نہ ڈالیں۔سابق وزرا اعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو سرکار نے بالترتیب چشمہ شاہی اور ہری نواس میں قید کیا ہوا ہے ، جہاں انکے قریبی رشتہ داروں کو ہی ان سے ملنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔وہیں انتظامیہ نے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فارق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)عائد کرکے انہیں گپکار میں واقع انکی رہائش گاہ ہی میں قید کر دیا ہے۔

ان سیاست دانوں کی رہائش گاہوں میں سیکورٹی کا سخت پہرہ ہے اور کسی بھی شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد پیدا شدہ نامساعد حالات سے سب سے زیادہ متاثر کشمیر کا تعلیمی شعبہ ہوا ہے۔

وادی کے تمام تعلیمی ادارے جزوی یا کلی طور بند ہیں اور تعلیمی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکام نے تعلیمی سرگرمیوں کو دوبارہ ڈگر پر لانے کی کئی کوششیں کیں لیکن ابھی تک یہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ نتیجے کے طور پر لاکھوں طلبہ کا تعلیمی مستقبل داو پر لگا ہوا ہے۔

نامساعد حالات کے ساتھ ہی کشمیر میں موسمی تبدیلی نے اسکولوں کے کھلنے کی راہ مسدود کی۔ دوسری جانب اعلی سرکاری دفاتر جموں منتقل ہوچکے ہیں چنانچہ ان وجوہات کی بنا پر کئی طلبہ نے اپنے تعلیمی مستقبل کو بچانے کیلئے جموں کی راہ لی ہے تاکہ یہاں وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق  جموں میں تاہم طلبہ کو بدستور اس دقت کا سامنہ ہے کہ یہاں بھی کشمیر کی طرح انٹرنیٹ کام نہیں کررہا ہے۔

جموں کے بٹھنڈی علاقے میں کشمیر سے آئے ہوئے طلبہ کی پڑھائی کا انوکھا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہاں ایک نجی لائبریری میں 210 طالب علم ہر روز پڑھائی کے لیے آتے ہیں۔ یہ لائبریری اب جموں خطے کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری بن گئی ہے۔ ہر وقت طلبہ کی ایک بڑی تعداد یہاں کتابیں پڑھنے میں منہمک نظر آتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے بعد کشمیر میں ایک ہزار پونڈ زعفران کی فصل تباہ ہورہی ہے۔کشمیر کے شہر پامپور میں زعفران کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں شروع ہوئی تھی اور مزید دو ہفتوں تک جاری رہے گی۔

کاشتکاروں کو اس بار بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔لیکن موجودہ حالات کی وجہ سے فصل تباہ ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے : مقبوضہ کشمیر میں صحافت : ’’رپورٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز’’کی چشم کشارپورٹ

مقبوضہ جموں کشمیر کے فٹبال کلب رئیل کشمیر نے محض 3برس میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا ہے ۔نئی دہلی میں رئیل کشمیر ایف سی نے آئی لیگ کے 2019-20 سیزن کے لئے اپنی نئی جرسی کا اجرا کیا۔ پہلی بارکلب نے اپنا مسکاٹ بھی پیش کیا، جس کا نام سمبا رکھا گیا ہے جو سنو لیپرڈ (برفانی چیتے)سے مشابہت رکھتا ہے۔ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق ریئل کشمیر کی ٹیم اپنا میچ سری نگر میں کھیلے گی ۔ریئل کشمیر ایف سی کو اسپورٹس سامان تیار کرنے والی عالمی کمپنی ایڈیڈاس کی سپانسرشپ حاصل ہے۔ ایڈیڈاس اس کلب کو 2018 سے کٹس اور کھیلوں کا سامان مہیا کررہی ہے اور وہ اس کلب کا باضابطہ پارٹنر (آفیشیل پارٹنر)بھی ہے۔

مقبوضہ جموں کشمیرمیں غیر مقامی ڈرائیورز نے ٹریفک حکام کی جانب سے انہیں تنگ کرنے اور ان سے جبرا پیسے وصول کرنے کا الزام عائد کیا۔ضلع اننت ناگ کے ونپو کے مقام پر جموں ۔ سرینگر قومی شاہراہ پر ڈرائیوروں نے الزام عائد کیا ہے کہ جموں ادھمپور عبور کرنے کے بعد ٹریفک پولیس کی جبرا وصولی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ایک ڈرائیور نذیر احمد نے ساؤتھ ایشین وائرکو بتایاکہ ادھمپور سے سرینگر تک انہیں چیک پوسٹ کے نام پر تقریبا بیس بار روکا جاتا ہے اور فی گاڑی سے 100 روپئے وصول کئے جاتے ہیں، اور رقم وصول کرنے کے بعد رسید بھی نہیں دی جاتی ۔

پلوامہ کے ترال قصبے میں نامعلوم بندوق برداروں نے معراج احمد نامی ایک دوکاندار پر فائرنگ کی جس میں موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔فائرنگ کے بعد سکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کا محاصرہ کرلیا اور تلاشی مہم جاری ہے۔


متعلقہ خبریں