ٹرمپ بیرونی پالیسیوں پر دیگر کو ساتھ لے کر چلیں، جوادظریف

خلیج فارس سے فوجی انخلا امریکی مفاد میں ہے، ایرانی وزیر خارجہ

فوٹو: فائل


تہران: ایران کے  وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے خبردار کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے اگر یک طرفہ پالیسیوں پر عمل درآمد ترک نہ کیا تو اس کی زد میں دیگر ممالک بھی آ سکتے ہیں۔

ایران کی خبررساں ایجنسی ارنا نے ایران کے دفتر خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ دوحہ میں منعقدہ ایشیائی تعاون کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شریک جواد ظریف نے امریکی پالیسیوں پر سخت تنقید کی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بیرونی پالیسیوں پر دیگر ممالک کو بھی ساتھ لے کر چلیں اور ان کا احترام بھی کریں۔

امریکی کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کے اطلاق کو کڑی نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہوئے خلیجی ملک قطر نے خبردار کیا ہے کہ امریکی فیصلے سے عالمی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

قطر کے وزیرخارجہ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران سے تیل خریدنے پر عائد پابندی کے فیصلے کا نقصان امریکہ کو ہو گا جب کہ ایرانی تیل پر انحصار کرنے والے ممالک بھی براہ راست فیصلے سے متاثر ہوں گے۔

قطر کے وزیر خارجہ نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندی کا فیصلہ واپس لے۔

محمد عبدالرحمان آل ثانی نے واضح کیا کہ قطر امریکہ کی طرف سے ایران پرعائد کی جانے والی یک طرفہ پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فیصلے سے خطے میں جاری بحرانوں اور پیدا شدہ مسائل کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

قطر کے وزیرخارجہ نےکہا کہ اگر امریکہ بحرانوں کا واقعی حل چاہتا ہے اور موجود اختلافات کے خاتمے کا خواہش مند ہے تو اسے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔

امریکہ نے ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے گزشتہ سال نومبر میں ایرانی معیشت  کے اہم ستون گردانے جانے والے شعبوں پر دوبارہ پابندی عائد کردی تھی۔ جن شعبوں پر پابندی لگائی گئی تھی ان میں توانائی، جہاز سازی، جہازرانی اور بینکنگ سیکٹرز شامل ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اوران کی انتظامیہ خواہش مند ہے کہ ایران سے نیا معاہدہ کیا جائے۔ امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ ایران سے کیے جانے والے نئے معاہدے میں جوہری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بیلسٹک میزائل پروگرام کو محدود کرنے کی بھی شرط شامل ہو لیکن ایران اس کے لیے تیار نہیں ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد اس معاہدے کو منسوخ کردیا تھا جو 2015 میں ایران اور دیگر چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا۔

ایران اورچھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت تہران نے جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ ایرانی آمادگی کو بنیاد بنا کر اس پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں نرم کردی گئی تھیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ایران پردوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا گزشتہ سال اعلان کیا تھا تو انہوں نے تہران سے خام تیل خریدنے والے آٹھ ممالک کو چھ ماہ کا استشنیٰ دیا تھا تاکہ وہ متبادل ذرائع تلاش کرلیں اور عالمی منڈی پر بھی اچانک دباؤ نہ پڑے۔

امریکہ کی جانب سے جن ممالک کو پابندیوں سے چھ ماہ کے لیے مستشنیٰ قراردیا گیا تھا ان میں چین، ترکی، جاپان، اٹلی، جنوبی کوریا، بھارت، تائیوان، اور یونان شامل تھے۔ امریکہ کی جانب سے دی جانےوالی رعایت کی مدت دو مئی کو ختم ہوگئی ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق امریکہ نے اب واضح پیغام دے دیا ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری فوری طور پر روک دی جائے بصورت دیگر ایران سے تجارت کرنے کے ’جرم‘ میں ان ممالک کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی اور امریکی وزارت خارجہ کے پالیسی مشیر برائن ہوک نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے اسے دس ارب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ خبررساں ایجنسی کے مطابق برائن ہوک نے یہ دعویٰ  ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو نے ہفتے کے آغاز پرکہا تھا کہ امریکہ ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر پر لانے کے لیے کام کرے گا۔

امریکہ میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل کی فراہمی پوری کرنے کے لیے واشنگٹن اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری کوشش ہے کہ ایرانی تیل کی بندش سے عالمی منڈی عدم توازن کا شکار نہ ہو۔

افغان حل کے لیے پاکستان کی مدد درکار ہے، مائک پومپیو | urduhumnews.wpengine.com

مائک پومپیو نے پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ  ہمارا ہدف قانون سے ماورا ایرانی نظام حکومت کو تیل کی آمدن سے محروم کرنا ہے۔ ان کا الزام تھا کہ ایران تیل سے حاصل آمدنی دہشت گردی کی پشت پناہی کے لیے استعمال کررہا ہے۔

ترکی کے نشریاتی ادارے ٹی آرٹی نے مؤقر امریکی اخبار’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک کالم کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی صورت میں یہ ملک کسی نئی جنگ کی جانب ’پھسلنے‘ لگے گا۔

ٹی آرٹی نے لکھا تھا کہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے کالم میں توجہ مبذول کرائی گئی  ہے کہ اسرائیل اور اتحادیوں کے نام پر خطے میں کارروائیوں کی بنا پر ایران کو سزا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


متعلقہ خبریں