بدلتے گاؤں اور گاؤں والے۔۔۔!


بیسویں اوراکیسویں صدی میں ہونے والی تیز رفتارترقی و ایجادات نے جہاں پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے وہیں گاؤں و دیہات کی سادہ لوح زندگی میں بھی انقلابی تبدیلیاں بپا کردی ہیں۔

کل کی بات ہے کہ گاؤں کی نالیوں میں سیوریج کا پانی بہتا تھا لیکن اب زیادہ تر دیہاتوں میں انڈر گراؤنڈ سیوریج کا نظام قائم ہو چکا ہے۔

کچی سڑکوں کی زیادہ تر جگہ پکی روڈوں نے لے لی ہے۔ پورے محلے میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی جگہ گھر گھر رنگین ٹی وی آگئے ہیں جن پر واحد پی ٹی وی کی جگہ کیبل یا ڈش انٹینا کے ذریعے درجنوں چینلوں کو دیکھا جاتا ہے۔

90 کی دہائی تک ہر گاؤں کے ایک یا دو گھر میں ٹیلی فون ہوا کرتا تھا جس پر پہلی کال کرکے اپنے گھر والوں کو پیغام بھیجنا پڑتا تھا اور پھر کچھ دیر انتظار کے بعد دوسری کال پر آواز سننا ممکن ہوتا تھا لیکن اس میں بھی زیادہ وقت ہیلو ہیلو اوریا پھر آواز نہیں آرہی ہے، ہاں ! اب آرہی ہے، کہتے گزرتا تھا البتہ ہونے والی بات چیت کے دوران پردیس میں مقیم افراد یہ تک جان جاتے تھے کہ گائے، بھینس اور بکری سمیت دیگر چرند پرند کس حال میں ہیں؟ خاندان و برادری میں کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟ کتنے رشتے طے پائے ہیں؟ اور کس کے گھر خوشخبری نے جنم لیا ہے؟ اس وقت بات چیت کے دوران وہ ٹیلی فون سیٹ زیادہ پسند کیے جاتے تھے جن میں اسپیکر ہوتا تھا تا کہ پورا گھر پردیس میں مقیم اپنے کی آوازسن سکے۔

دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی تھی جب اماں یا ابا سے ہونے والی بات چیت میں دیگر بہن بھائی لقمہ دیا کرتے تھے تو سننے والے کے لیے سمجھنا مشکل ہو جاتا تھا بلکہ کبھی کبھار تو بات کا مطلب ہی الٹ جاتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی سی او کی سہولت دستیاب ہوئی اور پھر بات موبائل فونز تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے اب لوگ دیہاتوں میں چلتے پھرتے، کھیتوں کو پانی لگاتے اور ٹریکٹر سے ہل چلاتے ہوئے بھی بات چیت میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔

بھلا ہوموبائل فون کمپنیز کا کہ اب تو کالیں بھی پیکجز کی وجہ سے لمبی لمبی کی جاتی ہیں۔ ہاں! اب خط پتر کا بھی دور بیت گیا ہے اورلڑکے لڑکیاں چٹھی نہیں لکھتے ہیں کیونکہ مابائل فون نے پوری دنیا سمیٹ کر ٹچ اسکرین پہ یکجا کردی ہے۔ گاؤں میں اب ڈاک بابو کی وہ دھاک نہیں ہے اور نہ ہی ان کی وہ آؤ بھگت ہوتی ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔

کھیتوں کو راہٹ اورنہری پانی سے سیراب کیا جاتا تھا اورٹیوب ویلوں تک رسائی صرف بڑے جاگیرداروں کو حاصل تھی لیکن اب چھوٹے زمیندار بھی ٹیوب ویل سے فیضیاب ہو رہے ہیں بلکہ اب تو بات سولر انرجی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں تک پہنچ گئی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ دیہاتوں میں بیلوں کی جوڑی کافی قیمتی سمجھی جاتی تھی کیونکہ وہ ہل چلانے کے کام آتی تھی لیکن مدت ہو گئی ہے کہ بیلوں کی جگہ ٹریکٹروں نے لے لی ہے۔

پتھر کے پاٹ والی چکی اب خال خال دیکھنے کو ملتی ہے اور وہ بھی باپ دادا کی کی نشانی کے طور پر کسی کونے میں دھری ہوئی ہوتی ہے کیونکہ گندم، مکئی اور باجرہ اب مشینی چکی سے پستا ہے۔ شاید! اب درانتی، رمبا، کسی، کلہاڑی اور ہاتھ سے برتن بنانے والے کمہاروں کے دن بھی تھوڑے ہی رہ گئے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیہاتوں کی آبادیاں اوروہاں موجود قبرستانوں کی زمینوں میں اضافہ ضرورہوا ہے۔ جہاں پہلے چند کچے مکانات ہوتے تھے وہاں اب کافی حد تک پکے مکانات دکھائی دیتے ہیں اور دو چار قبروں والے قبرستان روز بروز وسیع ہوتے نظر آتے ہیں۔

گزرے سالوں میں لوگ مساجد، بچوں کے اسکول اور بابے کی ہٹی رہائش گاہوں سے دور بناتے تھے لیکن اب وہ گاؤں کے درمیان آگئی ہیں۔

جہاں پورے گاؤں کا گندا پانی جمع ہوتا تھا وہاں بہترین مکانات دکھائی دیتے ہیں اور بھینسوں کو نہلانے والے جوہڑ خشک ہو چکے ہیں بلکہ بعض علاقوں میں تو پانی کے چشمے بھی سوکھ گئے ہیں۔

اس میں شک نہیں ہے کہ دیہاتی زندگی میں بہت کچھ بدلاؤ آیا ہے لیکن اب بھی ساتھ رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے خواہ وہ موت سے پہلے کی زندگی ہو اوریا پھر موت کے بعد والی زندگی ہو۔

گاؤں دیہاتوں میں آج بھی نئے گھر کی تعمیر سے قبل یہ چیز ضرور دیکھی جاتی ہے کہ دیوارکس کے ساتھ سانجھی ہے؟ یعنی کہ مکان کی دیوار بھائی کے گھر کی دیوار کے ساتھ ملے اور اگر بھائی نہ ہو تو پھر برادری ایک ہو وگرنہ مادری زبان تو لازمی طور پر ایک ہو۔

اسی طرح ابدی نیند سونے والوں کی قبریں کھودتے ہوئے بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ باپ دادا، تایا چچا اور بہن بھائی کی قبریں ساتھ ہوں۔

جس طرح گاؤں میں کچے مکانات کی جگہ پکے مکانات لے رہے ہیں بالکل اسی طرح کچی قبروں کی جگہ پکی قبریں بنانے کا تناسب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ لڑکوں کے پرائمری اسکول مڈل و ہائی اسکول بن گئے ہیں لیکن لڑکیوں کو پرائمری تعلیم کے بعد اب بھی زیادہ ترعلاقوں میں چھٹی جماعت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نزدیکی شہری علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

باندر کیلا، کبڈی، کوکلا چھپاکی، اڈا کھڈا، ٹھکریاں، والی بال، گلی ڈنڈا، چھپن چھپائی، پکڑن
پکڑائی اوربنٹے کھیلتے لڑکوں کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس جاتی ہیں، اسی طرح لٹو چلاتے  لوگ بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں مگر کرکٹ ضرور نظر آتی ہے مگر کون جانے کے انٹرنیٹ، کیبل اور ویڈیو گیمز کے فروغ کے بعد اس کے بھی شائقین کتنے اور کب تک رہیں؟

دیہاتوں میں رہنے والے بیل گاڑیوں پر میلوں سفر کیا کرتے تھے، گھوڑا گاڑی اور گدھا گاڑی بھی روزمرہ سفر کے لیے استعمال ہوتی تھی لیکن اب بیل گاڑی دکھائی نہیں دیتی ہے اور گھوڑوں و گدھوں کی جگہ موٹرسائیکلوں نے لے لی ہے جنہیں رکشاؤں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ سائیکل صرف بچے چلاتے ہیں اوروہ بھی چھوٹے سائز والی کیونکہ موٹرسائیکل تو تقریباً گھر گھر میں آگئی ہے۔

گاؤں دیہاتوں میں چند دہائی قبل تک جب کسی کی کار گزرا کرتی تھی تو بچے دور تک اڑتی دھول کا پیچھا کیا کرتے تھے لیکن اب دو چار کاریں تو ہر علاقے میں دکھائی دیتی ہیں۔ پہلے گاؤں سے شہر جانے والی بسیں تاخیر سے آیا کرتی تھیں مگر اب وہ بھی نہیں آتی ہیں کیونکہ ان کی جگہ چھوٹی ہائی ایس گاڑیوں نے لے لی ہے جو تھوڑے سے وقفے کے بعد چلتی ہیں۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ گاؤں کے ہر گھرکی چہار دیواری میں درخت ضرور ہوتا تھا اور زیادہ تر نیم کا درخت لگایا جاتا تھا جس کی نبولی سے بچے کچے اور پکے آم والا کھیل کھیلتے تھے جب کہ بزرگ اس کی ٹہنیوں سے مسواک کیا کرتے تھے۔ نیم کے درخت کی پتیاں بھی مختلف بیماریوں میں استعمال کی جاتی تھیں۔

گاؤں کے گھروں میں ایک کنارے پر چھوٹی سی کیاری بنائی جاتی تھی جس میں ہرا دھنیا، پودینہ، لہسن، مرچ، کریلے، توری، لوکی اور بینگن سمیت دیگر سبزیاں اگائی جاتی تھیں اورساتھ ہی مونگرا، موتیا، گلاب اور رات کی رانی کے پودے لگے ہوتے تھے جن سے گھر کا آنگن مہکتا رہتا تھا۔

باورچی خانے درخت تلے بنے ہوتے تھے اور یا پھران کے لیے کھلی جگہ کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ غسل خانہ مکان کے بالکل آخری حصے میں بنایا جاتا تھا اور بیت الخلا کے لیے زیادہ تر کھلی جگہ یعنی کھیت کو منتخب کیا جاتا تھا۔

گاؤں اور دیہاتوں میں انسان اور انسان دوست جانور ایک ہی چہار دیواری میں اکھٹے زندگی گزارتے تھے یعنی بھینس،گائے، گدھا، بھیڑ، بچھڑا، بکری، بکرا، بیل، مرغی، بطخ، کتا، بلی، چوہا، چڑیا، کبوتر، شہد کا چھتہ اور کبھی کبھار ان سب کے ساتھ جنات کا بھی قیام و طعام ہوتا تھا۔

۔۔۔ لیکن اب نئے تعمیر ہونے والے مکانات میں سب سے پہلے لگے ہوئے درخت کاٹ دیے جاتے ہیں، کیاری کے لیے کوئی جگہ مختص نہیں ہوتی ہے۔ پانی کے لیے نلکوں کے بجائے بجلی کی موٹریں لگائی جاتی ہیں اور غسل خانے، باورچی خانے سمیت استنجا خانے کے لیے جگہیں مختص کردی جاتی ہیں۔

گھروں کی چہار دیواری میں جانوروں کو پالنے کا رواج انتہائی کم ہو گیا ہے اور زیادہ تر جانوروں کو گھروں سے دور رکھا جاتا ہے۔ کسی کسی گھر میں بمشکل ایک دو جانور دکھائی دیتے ہیں۔

کھانا پکانے، کپڑے دھونے، نہانے اور پینے کے لیے پہلے کنویں سے پانی نکالا جاتا تھا مگرپھر اس کی جگہ نلکوں نے لی اور اب بجلی والی موٹریں آگئی ہیں جو زیادہ تر سولر سسٹم پہ منتقل کی جا رہی ہیں۔

گاؤں اور دیہاتوں میں نلکے کی ٹونٹی سے منہ لگا کر پانی پینے کا رواج عام تھا اور نوجوان تو خاص طور پراسکول یا کالج آتے جاتے اسی طرح اپنی پیاس بجھاتے تھے مگر اب حکومت نے زیادہ تر علاقوں میں فلٹریشن پلانٹس لگا دیے ہیں جس کی وجہ سے بالٹیاں و مٹکے بھرنے کے لیے کنویں پر جانے والے اب بوتلیں لے کر فلٹریشن پلانٹ پہ جاتے ہیں۔ مٹی کے مٹکے و صراحیاں خال خال دکھائی دیتی ہیں کیونکہ فریج نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔

دیہاتوں میں بسنے والے ایک دوسرے کے گھر سے کھانا مانگ کر کھانے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے لیکن کسی کے گھر سے آنے والے چاول، سالن، کھیر، دال اور حلوے کے برتن خالی لوٹانے کو معیوب سمجھتے تھے مگر اب یہ دونوں روایات بھی دم توڑتی محسوس ہوتی ہیں۔

کیا کوئی یقین کرے گا کہ گاؤں کے رہنے والے فارمی مرغی  کا گوشت کھانے میں استمال کرنے لگے ہیں، دودھ و دیسی انڈے فروخت کیے جاتے ہیں، مکھن نکالنے کی روایت ہر گھر میں باقی نہیں رہی ہے البتہ لسی جیسی نعمت اب بھی مفت میں مل ہی جاتی ہے لیکن دیسی گھی کے لیے کسی کو کہنا پڑتا ہے۔

سر شام جمنے والی چوپالیں و محفلیں قصہ پارینہ بن گئی ہیں، سماجی و معاشرتی مسائل پہ گفتگو کو وقت کا ضیاع قرار دیا جانے لگا ہے، کسی 80 یا 90 سالہ بزرگ کے پاس کوئی حقہ پینے نہیں آتا ہے اور نہ ہی  کسی موذی مرض کا علاج بابوں سے پوچھا جاتا ہے کیونکہ میڈیکل سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔

جن چوراہوں پہ یار بیلی رات گئے تک بیٹھک لگاتے تھے وہاں اب مغرب کے بعد سے سناٹا طاری ہوجاتا ہے۔ اب پیپل، بوہڑ اور آم کے درختون کے نیچے محافل بھی نہیں سجتی ہیں البتہ چند آوارہ کتے کچھ وقت ان درختوں کے نیچے گزارتے ہیں اور یا پھر کوئی گدھا کبھی کبھار آکھڑا ہوتا ہے۔

بزرگوں کی روایات تھیں کہ ہر جمعرات کو قبروں پر دیے جلائے جاتے تھے، اگر بتیاں مہکائی جاتی تھیں اور مرحومین کی ارواح کے ایصال ثواب کے لیے کوئی بھی میٹھی چیز لوگوں اور بچوں میں بطور خاص تقسیم کی جاتی تھیں۔

گاؤں میں یہ روایت مشہورتھی کہ مرحومین کی ارواح ہر جمعرات کو اپنے گھروں پہ آتی ہیں لیکن منڈیر تک محدود رہتی ہیں اور ان کی بخشش کے لیے اگر کچھ آیات مقدسہ تلاوت کی جاتی ہیں تو واپس خوش ہو کر جاتی ہیں اور اگر کسی کے ورثا نے کچھ بھی تلاوت نہ کیا ہو تو رنجیدہ واپسی کا سفر کرتی ہیں مگر اب یہ روایت بھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ قبروں پہ بہت کم دیے جلائے جاتے ہیں اوراگربتیاں بھی خال خال مہکتی ہیں۔ اسی طرح گھروں میں بطور خاص جمعرات کے دن میٹھا پکانے کی روایت بھی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔

خدا معلوم کہ اب جب مرحومین کی ارواح گاؤں میں جمعرات کے دن اپنے گھروں کا رخ کرتی ہوں گی تو انہیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں گاؤں اور دیہاتوں کی بہت سی روایات نے دم توڑا ہے اور درجنوں ماضی کے نقوش دھندلے ہوئے ہیں وہیں شہروں سے ان کا ایک رشتہ یہ ضرور برقرار ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول اور بہتر روزگار کی تلاش میں دیہاتی آج بھی شہروں کا رخ کرتے ہیں اور ان میں سے چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو پھر برسوں پلٹ کراپنے آباؤ اجداد کی زمین پر واپس بھی نہیں جاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں نہیں معلوم ہوتا کہ ان کا خاندان کس حال میں ہے اور کہاں ہے؟

۔۔۔ لیکن دنیا کی موجودہ  تیز رفتار ترقی دیکھ کر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ اب جانے والوں میں سے کون کب واپس آئے گا؟ اور آئے گا بھی کہ نہیں؟ کیونکہ شہروں کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے مگر گاؤں میں رہنے والے وہ افراد جن کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا ہے اور نہ ہی وہ کوئی ہنر سیکھ پاتے ہیں اب بھی باپ دادا کی زمین سے جڑ کر اپنا رزق حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں اور دھرتی ماں انہیں مایوس نہیں کرتی ہے کہ ماں جو ٹھہری۔


متعلقہ خبریں