امریکی گئے، ڈالر بھی اڑ گئے، افغان بنک کنگال


افغانستان کے بینکوں میں ڈالر ختم ہو رہے ہیں اور اگر طالبان حکومت فنڈز جاری نہیں کرتی، بینکوں کو اپنے دروازے بند کرنا پڑ سکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیسے کی کمی سے ملک کی پہلے سے تباہ حال معیشت کو مزید تباہی کا خطرہ ہے۔

افغانستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار امریکہ کی طرف سے کابل میں مرکزی بینک کو بھیجنے والے سینکڑوں ملین ڈالر پر ہے جو بینکوں کے ذریعے افغانیوں تک پہنچتے ہیں۔

طالبان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے ایک مہینے کے بعد بینکروں کو خدشہ ہے کہ ڈالروں کی کمی سے خوراک یا بجلی کی قیمت بڑھ سکتی ہیں، جو عوام کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنے گا۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان کے اثاثے کتنے اور کہاں ہیں؟

افغانستان میں اگرچہ پیسوں کی کمی کئی ہفتوں سے جاری ہے ، لیکن ملک کے بینکوں نے حالیہ دنوں میں بارہا اپنی تشویش نئی حکومت اور مرکزی بینک تک پہنچائی ہے۔

نجی بینکوں نے مرکزی بینک سے کہا ہے کہ وہ امریکی ڈالر کی فراہمی کو ممکن بنائے۔ لیکن انہیں ابھی تک اپنی درخواستوں کا جواب نہیں مل سکا ہے۔

روئٹرز نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ’ صرف چند دنوں کی ادائیگی کی لیکویڈیٹی باقی ہے، اگر حکومت نے صورتحال پر فوری اقدامات نہ کیے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے‘۔

بدھ کو اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں مرکزی بینک کے قائم مقام گورنر نے کہا کہ بینک مستحکم ہیں۔

انہوں نے کہا ،”بینک مکمل طور پر محفوظ ہیں، کمرشل بینک عام طور پر اپنے سرمائے کا 10 فیصد نقد کے طور پر رکھتے ہیں اور افغانستان میں اوسطا 50، 50 فیصد نقد رقم رکھتے ہیں۔ تاہم مرکزی بینک نے عوام پر زور دیا کہ وہ مقامی کرنسی استعمال کریں۔

 


متعلقہ خبریں