پاکستان: سرکاری شعبوں میں تنخواہیں اور مراعات نجی شعبے کی نسبت 53 فیصد زائد

پاکستان: سرکاری شعبوں میں تنخواہیں اور مراعات نجی شعبے کی نسبت 53 فیصد زائد

اسلام آباد: عام تاثر ہے کہ پاکستان کے سرکاری شعبوں میں پرائیوٹ اداروں کی نسبت تنخواہیں اور مراعات کم ہیں لیکن اب اس تاثر کی سختی سے نفی کرتے ہوئے سرکاری تھنک ٹینک نے بتایا ہے کہ ملک کے سرکاری شعبوں میں تنخواہیں اور مراعات نجی شعبے کی نسبت 53 فیصد زائد ہیں۔

بی آئی ایس پی اسکینڈل: سرکاری افسران کا پیسے نکلوانے والی خواتین کو بیویاں ماننے سے انکار

ہم نیوز نے ایک خلیجی ویب سائٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان کے سرکاری تھِنک ٹینک نے اقوام متحدہ کے ادارے کے ساتھ مل کر تیار کی گئی تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سرکاری اداروں کے افسران کی تنخواہیں اور مراعات حیرت انگیز ہیں جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی افسران اقوام متحدہ کے افسران سے بھی زیادہ مراعات وصول کرتے ہیں۔

اس ضمن میں ویب سائٹ نے بتایا ہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گریڈ 21 کے پاکستانی افسر پر کل خرچ ہونے والی رقم اقوام متحدہ کے افسران پر خرچ ہونے والی رقم سے بھی 12 فیصد زائد ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کو بہت فیاضانہ تنخواہ دینے والا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ پائیڈ نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے اشتراک سے تیار کی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں حکومت کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ بہتر یہی ہے کہ سرکاری افسران کو تمام مراعات کیش کی صورت میں ادا کی جائیں۔

اعداد و شمار کے تحت عالمی بینک کے ورلڈ بیوروکریسی انڈیکیٹر کے مطابق پاکستان کے سرکاری شعبے میں تنخواہیں پرائیویٹ شعبوں سے 53 فیصد زائد ہیں۔

تفصیلی رپورٹ میں درج ہے کہ گریڈ 20 کا ایک پاکستانی افسراوسطاً بنیادی تنخواہ کی مد میں صرف ایک لاکھ 660 روپے وصول کرتا ہے لیکن جو مراعات و فوائد اسے میسر ہوتے ہیں ان کی مالیت ماہانہ سات لاکھ 29 ہزار 511 روپے کے مساوی بنتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق گریڈ 20 کے افسر کو دی گئی کار کے اخراجات، گھر اور طبی سہولتوں کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ اس کی بنیادی تنخواہ سے سات گنا زائد ہوتے ہیں۔

سرکاری افسران کے گوشواروں کو ویب سائٹ پر جاری کرنے کا مطالبہ

تحقیقی رپورٹ کے مطابق اسی طرح گریڈ 21 کے پاکستانی افسر کی اوسطاً بنیادی تنخواہ ایک لاکھ 11 ہزار 720 روپے بنتی ہے مگر کار، گھر اور طبی اخراجات کے ساتھ ملنے والے مالی فوائد ماہانہ تقریبا 10 لاکھ روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ اصل تنخواہ بنیادی تنخواہ سے گیارہ گنا زائد ہوتی ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق گریڈ 22 کے سرکاری افسر کی اوسطاً بنیادی تنخواہ صرف ایک لاکھ 23 ہزار 470 روپے ہے مگر وہ ہر ماہ 11 لاکھ روپے کے مالی فوائد استعمال کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔

پائیڈ کی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے وفاقی سیکریٹری کو ان کے ہم پلہ اقوام متحدہ کے افسر سے بھی زیادہ ماہانہ مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک سیکریٹری لیول افسر کو تقریباً 9 لاکھ 10 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔

اس ضمن میں پائیڈ نے تحقیقاتی رپورٹ میں حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ سرکاری افسران کی تنخواہیں ان کے ہم پلہ پرائیویٹ سیکٹر ملازمین کے مساوی ہونی چاہیے اور ان میں سالانہ اضافہ بھی کارکردگی کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کے زیر استعمال رہائش گاہوں کی کل قیمت تقریباً ساڑھے 14 کھرب یا ڈیڑھ ٹریلین روپے کے مساوی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت تمام سرکاری گھروں کو پرائیویٹ سیکٹر کو بیچ کر 14 کھرب سے زائد رقم حاصل کر سکتی ہے اور اگر ان مکانات کو حکومت کرائے پر دے تو سالانہ تقریباً 11 ارب روپے وصول کرسکتی ہے۔

تحقیقی رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ سرکاری افسران کے زیر استعمال گاڑیوں کے اوپر ہونے والے اخراجات ان کی بنیادی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

اعداد و شمار کے تحت سرکاری افسران کو سیلری سلپ میں شامل ملنے والے میڈیکل الاؤنس کے علاوہ ہر ماہ انہیں مجموعی طور پر دو اعشاریہ تین ارب روپے میڈیکل اخراجات کے ضمن میں بھی ادا کیے جاتے ہیں۔

پائیڈ کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مراعات کے بجائے سرکاری افسران کو نقد رقم دی جائے لیکن طریقہ کار درست رکھا جائے کیونکہ ماضی میں گاڑیوں کی مونیٹائزیشن ناکام رہی تھی۔ اس حوالے سے یہ ہوا تھا کہ اکثر افسران پیسے بھی لیتے تھے اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری گاڑیاں بھی زیر استعمال رکھے ہوئے تھے۔

سندھ کے سرکاری افسران پر سفری پابندی عائد

اردو نیوز کے مطابق پائیڈ کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ مں سول سروس میں اصلاحات کے لیے 29 کمیشن بنائے گئے ہیں لیکن کسی ایک کمیشن سے بھی بہتری نہیں آسکی ہے۔


متعلقہ خبریں