سگریٹ مزید مہنگا، سیل ٹیکس 18 فیصد، 170 ارب کے نئے ٹیکس


وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2023 پیش کردیا۔

قومی اسمبلی اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعے 170 ارب روپے کے محصولات لگانا مقصود ہیں، آئی ایم ایف کی ٹیم نے ایف بی آر کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، اضافی محصولات کا حکومت کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بجلی کی چوری، لائن لاسز اور بلوں کی ریکوریوں کی مد میں 1400 ارب کے نقصانات ہیں، ایسے نقصانات کی کوئی بھی ریاست متحمل نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری گذشتہ حکومت نے گردشی قرضوں کے حجم میں کمی لانے کے لئے اقدامات اٹھائے مگر پی ٹی آئی حکومت نے 1100 ارب روپے کے گردشی قرضوں کو بڑھا کر 2467 ارب تک پہنچا دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں لازم ہے کہ چند مشکل فیصلے کریں جو ناگزیر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس شعبہ میں اصلاحات کی بات کی ہے، وفاقی کابینہ نے 170 ارب کے ٹیکس لگانے کی منظوری دی ہے، روز مرہ کی گھریلو اشیاء پر ٹیکس اور عام آدمی پر ٹیکس نہیں لگے گا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے امیر ترین لوگوں کے لگژری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح کو 25 فیصد، فرسٹ اور بزنس کلاس میں سفر کرنے والوں پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح شادی کی تقریبات میں سادگی کو فروغ دینے کے لئے 10 فیصد ود ہولڈنگ ایڈوانس ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے، سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی 1.50 روپے سے بڑھا کر دو روپے فی کلو گرام کی جا رہی ہے۔

مزید کہا کہ جی ایس ٹی کی شرح کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا ہے، کھلے فروٹ، گوشت، دالوں اور روز مرہ کی اشیاء پر ٹیکس نہیں لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے مختص رقم میں 40 ارب مزید اضافہ کیا جا رہا ہے، یہ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم شہباز شریف چند دنوں میں عوام کو اعتماد میں لیں گے۔

منی بجٹ کے بعد کون کونسی اشیا مہنگی ہوں گی؟

انہوں نے کہا کہ ان اصلاحات کے نتیجہ میں معاشی استحکام آئے گا اور ترقی کا عمل شروع ہو گا، جی ڈی پی کی شرح بہتر ہو گی۔

وزیر خزانہ  نے کہا کہ وزیراعظم خود بحث کریں گے، کابینہ اپنے اخراجات کم کرے گی، زراعت، صنعت کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے آئندہ سال جی ڈی پی کا ہدف 4 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، روپے کی قدر میں استحکام آئے گا، برآمدات بڑھیں گی کیونکہ برآمدات کے لئے پیداواری عمل میں خام مال کی درآمد بنیادی اہمیت کی حامل ہے اس لئے ایل سیز کے معاملے کو بہتر بنائیں گے جس سے برآمدات کی صنعتوں کا پیداواری عمل بہتر ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ مالی خسارے کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے ایف بی آر محصولات کا ہدف پورا کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ 170 ارب روپے کے اضافی محصولات سے مالی خسارے میں کی آئے گی۔ زراعت کا شعبہ کم سے کم وقت میں ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس لئے وزیراعظم نے 2000 ارب روپے کا کسان پیکج کا اعلان کیا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ اس شعبے کے لئے 1819 ارب روپے کے زرعی قرضوں میں 1000 ارب سے زائد کے قرضے ادا بھی کئے جا چکے ہے، رواں سال زرعی مشینری کے لئے سبسڈی اور آسان قرضے فراہم کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ درآمدی یوریا کھاد موجودہ صورتحال میں انتہائی مہنگی پڑتی ہے جبکہ مقامی یوریا کھاد سستی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک میں یوریا کھاد کی دو قیمتیں ہوں اس لئے یوریا کھاد کی قیمتوں کو کم سطح پر رکھنے کے لئے اس شعبہ کو 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ زراعت سے منسلک چھوٹے اور بڑے کاروبار کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے، ان کاروباروں کی ریٹنگ فی یونٹ 4 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار کر دی گئی ہے تاکہ یہ یونٹ زیادہ سے زیادہ قرضوں سے مستفید ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں 75 ہزار شمسی توانائی ٹیوب لگائے جائیں گے۔ آئی ٹی کے شعبہ کے لئے خصوصی مراعات کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس شعبہ سے وابستہ لوگ اب 35 فیصد رقم اپنے اکائونٹس میں رکھ سکیں گے۔

وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ میں نے 2013 سے 2017 تک جو پانچ بجٹ پیش کئے ان میں ہمیشہ میں نے قومی اقتصادی ایجنڈے کی تشکیل کی بات کی، کوئی بھی حکومت ہو ملک کے اکنامک چارٹر میں کوئی تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں بھی اس قسم کی صورتحال تھی، مگر تین سالوں میں پاکستان دنیا کی چوتھی معیشت بن گیا، میثاق معیشت کے تحت حکومت کی کسی بھی جماعت کی ہو ریاست کو اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے،

 


متعلقہ خبریں