راولپنڈی کا سو سالہ قدیم موتی بازار

راولپنڈی کا سو سالہ قدیم موتی بازار | urduhumnews.wpengine.com

راولپنڈی کا موتی بازارشہر کے قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے اور اس کی رونق سو سال گزرنے کے باوجود برقرار ہے۔

راولپنڈی کا مشہور موتی بازار ایک ایسا سچا ’موتی‘ جس کی چمک ایک صدی گزرنے کے باوجود ماند نہیں پڑی۔ اس بازارمیں ایک ایسی کشش ہے کہ اس کی بھول بھلیوں جیسی تنگ گلیاں لوگوں سے بھری اوران کی آنکھوں کو خیرہ رکھتی ہے۔رہتی ہیں۔

سو سال پرانے اس بازار کے کئی داخلی دروازے ہیں۔ پہلے یہ بازار صرف خواتین کے لیے مخصوص تھا لیکن اب مرد اورجوان بھی یہاں گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ موتی بازار میں تمام اشیا نہ صرف باآسانی مل جاتی ہیں بلکہ سستی اور معیاری بھی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

تاریخ دان کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل موتی لال نامی ہندو نے اس بازار کے ساتھ ایک ’کنیا آشرم‘ (لڑکیوں کی خانقاہ) تعمیر کرایا۔ جہاں خواتین پناہ لینے کے بعد سلائی کڑھائی کرکے گزربسر کرتی تھیں۔ خواتین کاریگروں اورہنرمندوں کی اشیا موتی لعل نے حویلی کے باہر دکانوں میں سجا لیں۔

1960 میں پنجاب حکومت نے موتی لال کی قدیم حویلی کو تحویل میں لے کر سرکاری اسکول کا درجہ دے دیا۔ یہ حویلی اب ایم سی ہائی اسکول، موتی بازار کے نام سے مشہور ہے۔

موتی بازار کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 1900 میں موتی لال نے اس بازار کی بنیاد رکھی تھی۔ 1947 میں یہاں صرف 22 دکانیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہاں پورا بازارآباد ہوگیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ  دکانوں کی جگہ شاپنگ مالز نے لے لی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بازار میں 12 سو دکانیں ہیں۔

تنگ گلیوں اور چھوٹی دکانوں والے اس بڑے بازار میں کئی ذیلی بازار بھی ’سانس‘ لیتے ہیں۔ ہر بازار کے تاجروں کی ایک علیحدہ تنظیم ہے۔ تمام ذیلی تنظیموں کی ایک مرکزی یونین بھی ہے۔ مقامی دکانداروں کا کہنا ہے کہ عام دنوں میں یہاں روزانہ کم ازکم آٹھ ہزارخریدار آتے ہیں البتہ تہوار یا خاص مواقع پریہ تعداد کئی گنا بڑھ بھی جاتی ہے۔


معاونت
متعلقہ خبریں